گجرات فسادسے دہلی فسادتک مودی اور میڈیا

   

اجے پٹنایک
نریندر مودی سے گجرات فسادات کے تعلق سے جب سوال کیا گیا تھا توانھوں نے اس دوران جاں بحق ہونے والے ہزاروں لوگوں پر کسی افسوس یا مایوسی کااظہار کرنے کی بجاے صاف طورپر میڈیا پرالزام لگایا دیا تھا کہ میڈیا نے گجرات فسادات کی خبریں بڑھاچڑھاکر پیش کیں جس کی وجہ سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ مودی نے کہاتھاکہ وہ میڈیاکو قابو نہیںکرپائے اوراس کے بعد سے ہی انھوں نے سیاسی سطح پر اپنی ساکھ مضبوط کرنے کے ساتھ میڈیا پر بھی خاص توجہ دینا شروع کردیا تھا حتی کہ جب ہندوستان میں سوشل میڈیا کا ظہور ہوا تو سب سے پہلے اسے اپنی سیاسی تشہیر کے لیے استعمال کرنے والی پارٹی بی جے پی تھی اور اس میں یقیناً مودی کا ہاتھ تھا۔ نریندرمودی 2009سے ہی ٹوئٹر پر متحرک پائے جاتے ہیں،جبکہ راہول گاندھی کو2015 میں اس کی افادیت واہمیت کا احساس ہوا،اسی طرح دوسرے سیاسی قائدین بھی بہت بعد میں ٹوئٹراور دیگر سوشل سائٹس پر رونما ہوئے۔ بی جے پی کا سرکاری ٹوئٹراکاؤنٹ2010 سے ہی متحرک ہے،اس کے علاوہ تمام ریاستی یونٹس کے الگ ٹوئٹراکاؤنٹس ہیں اور سب سرگرم ہیں جبکہ کانگریس ٹوئٹرپر2013 میں آئی اور اس کی صوبائی یونٹس تواب بھی سوشل میڈیا پر سرد ہی پڑے ہیں۔دونوں کی ویب سائٹس میں بھی حرکیات اور سرگرمیوں کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ 2014میں عام انتخابات سے پہلے کے دوتین سال میں جبکہ یوپی اے حکومت کے خلاف پورے ملک میں بے چینی پائی جارہی تھی، میڈیا میںکھل کر اس حکومت کی بد عنوانیوں پرتنقیدکی جارہی تھی اوراناہزارے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چھیڑچکے تھے،اس دوران مودی کو پورا موقع ملاکہ وہ حکومت مخالف میڈیاکو اپنا حامی بنالیں ۔ لہذا عام انتخابات سے پہلے انتخابی مہم کے دوران ہی اصل میڈیاکے زیادہ تر چینلز مودی کے گن گانے میں مصروف ہوچکے تھے۔اس وقت ملک بھرکا میڈیا کانگریس کی بدعنوانیوں کے خلاف صف آرا ہوچکا تھا۔ اسی بدعنوانی پر مودی کی وزیر اعظم کی امیدواری کی بنیاد رکھی گئی اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے فریبی نقاب کے ساتھ مودی نے انتخابی مہم شروع کی جس میں انھیں میڈیاکا بھر پور ساتھ ملا۔ 2014کے عام انتخابات میں انھیں زبردست کامیابی ملی اورنتیجتاً2002کے قتلِ عام پر افسوس و معذرت کا ایک لفظ نہ بولنے والا انسان پورے ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔اس کے بعد اچانک مین اسٹریم میڈیاکا لب و لہجہ بدلا،اب اس نے حکومت کی تنقید کی بجاے اس کی مداح سرائتی کی پالیسی اپنالی کیوں کہ مودی حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کی دنیاکو کنٹرول کرنے کے لیے آئی ٹی سیل کو سرگرم کیا، وہیں ٹی وی چینلوں کو بھی یکے بعد دیگرے کنٹرول کیاگیا۔ جو مودی کے حلیف ہوئے انھیں نوازنے کا عمل شروع ہوا اور زیادہ ترنیوزچینلز اور مرکزی دھارے کے صحافی ایسے ہی نکلے جبکہ گنے چنے چینلوں نے یا صحافیوں نے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا یا حکومت سے سوال پوچھنے کی جرت کی تو مودی حکومت نے پہلے انھیں پیار سے قائل کرنا چاہا، انھوں نے نہیں مانا توان پر آنکھ بھؤں چڑھائے پھر بھی نہ مانے،توان کے پیچھے سی بی آئی اور آئی ٹی سیل کے سرماؤں کوچھوڑ دیا گیا ۔ ایک طرف قانونی داؤ پیچ کے ذریعے انھیں پھانسنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر اپنے لوگوں کے ذریعے ان کی ناک میں دم کرنے کی سازش رچی گئی، نتیجہ یہ ہواکہ حکومت کے پانچ سال پورے ہوتے ہوتے نناوے فیصد ہندوستانی میڈیا مودی اینڈکمپنی کے دربار میں بھجن گانے لگے اور جو باغی تھے وہ اپنے چینلوں سے نکال دیے گئے یا بی جے پی نے عملی طورپر ان کا بائیکاٹ کردیا۔ شکر ہے کہ ایسے چند صحافی زندہ ہیں اور یوٹیوب یا دیگر خانگی میڈیا اور ویب سائٹس پر لکھ بول رہے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی شرمناک حقیقت ہے کہ چار سو سے زائد چینلوں کے درمیان اگر کسی نیوزچینل کو واقعی صحافتی ذمے داریاں نبھانے والا قراردیا جاسکتاہے توآٹے میں نمک کے برابر ہے۔ 2002کے گجرات فسادات اور 2020کے دہلی فسادات کے درمیان فرق صرف یہ نہیں ہے کہ ہندسوں میں الٹ پھیر ہواہے اور اس خونیں ڈرامے کوانجام دینے والے جولوگ اْس وقت گجرات کے چیف منسٹر اور ووزیر داخلہ تھے،اب وہ پورے ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہیں بلکہ دونوں کے درمیان ایک نہایت ہی مہیب فرق یہ بھی ہے کہ اْس وقت کے ہندوستانی میڈیا نے گجرات قتلِ عام پر وہاں کی مودی حکومت کے خلاف سینہ سپرہوکر حقائق کا پردہ فاش کیاتھا لیکن آج کا ہندوستانی میڈیا مودی حکومت کے معاون اورشریکِ کار کے طورپر کام کررہاہے۔شمال مشرقی دہلی میں تقریبا ًپچاس سے زیادہ ہندوستانی مارے جاچکے ہیں اورتاحال مردہ خانوں کے باہر عوام اپنے عزیزوں کی لاشوں کے انتظار میں کھڑے ہیںلیکن افسوس کہ ان شرپسندوں کے سینے کی آگ اب بھی سرد نہیں ہوئی ہے اور مین سٹریم میڈیاکے سارے نیوز چینل عام آدمی پارٹی کے ایک مسلمان کونسلرطاہرحسین کوآئی بی اہل کارانکت شرما کے قتل کے سلسلے میں ویلن بناکر پیش کررہے ہیں۔ اس کے گھرکے کونے کونے کوچھان کرپتا نہیں کیاکیا ’’برآمد‘‘کرچکے ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ طاہر حسین خود اس فساد کے متاثرین میں سے ایک ہیں اور وہ خود پولیس کی مدد کی وجہ سے بچ پائے تھے لیکن چوں کہ مذکورہ مقتول شخص کی لاش ان کے گھر کے پاس ملی، توساراضمیر فروش میڈیایہ ثابت کرنے میں لگ گیاکہ اسے طاہر حسین نے ہی ماراہے،حالاں کہ دی وال اسٹریٹ جرنل نے مقتول کے بھائی انکورشرماکے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ اسے مارنے والے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگارہے تھے، اگرچہ بعد میں متعدد رپورٹس میں یہ بھی آیاہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے غلط خبر شائع کی ہے اور انکورشرمانے اس اخبار کوایسا کوئی بیان نہیں دیا، متعددپولیس عہدیداروں کی جانب سے وال اسٹریٹ جرنل کے خلاف فرضی خبر شائع کرنے کی شکایت بھی درج کروائی گئی ہے۔اسی طرح مین اسٹریم میڈیا نے ایک بندوق بردارنوجوان جس کی شناخت شاہ رخ کے نام سے ہوئی،اس کی خبر کو بھی نہایت جارحانہ انداز میں شائع کی اور کوشش کی کہ دہلی کا سارافساد اسی ایک شخص نے کیا ہے جبکہ دواخانوں میںزیر علاج زخمیوں کی رپورٹس میں لگاتار یہ انکشاف ہورہاہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو گولی لگی ہے تویقیناً گولی چلانے والے بھی بے شمار لوگ ہوں گے اور سوشل میڈیاپر توایسی پچاسوں ویڈیوزگھو م رہی ہیں جن میں فسادی کھلے عام آگ لگاتے،مسجدوں کو شہید کرتے اور لوگوں پر گولی چلاتے نظر آرہے ہیں لیکن ہمارے ملک کا میڈیا اب بھی پوری کوشش میں ہے کہ اس اندوہناک سانحے میں متاثر ہونے والے خاندانوں کی مدد کرنے کی بجاے کسی طرح اس میں مسلم کرداروں کو تلاش کرتے ہوئے انھیں دہلی فساد ماسٹر مائنڈبنادیاجائے۔