تروشی اسونی
ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان میں فی الوقت عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کو بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے حکام مساجد، قبرستانوں اور درگاہوں پر بلڈوزر چلائے جانے لگے ہیں جس کی تازہ ترین مثال گجرات کی مشہور مندر سومناتھ کے قریب صدیوں قدیم درگاہ، مسجد اور قبرستان کی مسماری ہے۔ اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ، قبرستان اور درگاہ سومناتھ مندر کی اراضیات پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے تعمیر کی گئیں۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ صرف اور صرف سومناتھ مندر کے قریب اراضی کو صاف کرنے کیلئے یہ انہدامی کارروائیاں کی گئیں نتیجہ میں ہمیں بے گھر ہونا پڑا۔ 51 سالہ عبدالحمید ایک کٹھن اور مشکل وقت کا سامنا کررہے ہیں، ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہیں‘ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ویراول میں واقع درگاہ حضرت پیر شاہ سِلار ؒ کے گیارہ نسلوں سے معتقد چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک انہیں یاد ہے ان کے والد، دادا اور پردادا حضرت پیر شاہ سِلار ؒ کے بہت زیادہ معتقد تھے اور ان بزرگ ؒ کی درگاہ کو ساحل کے مکین ماہی گیروں کا روحانی مرکز اور روحانی آسرا تصور کرتے تھے۔ عبدالحمید کے مطابق 28 ستمبر کو ضلع گیر سومناتھ کے ویراول میں اس درگاہ کو اور دیگر 8 مذہبی ڈھانچوں اور مسلمانوں کے 47 مکانات کو منہدم کردیا گیا اور اس کیلئے 6 گھنٹوں کی مہم چلائی گئی۔ صرف مسلمانوں کی جائیدادوں اور ملکیت کے خلاف چلائی گئی اس مہم میں تقریباً 200 مقامی لوگ متاثر ہوئے۔ اسی طرح انہدامی کاروائی کے دوران زائد از 150 مقامی افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ انہدامی کارروائی کے احکامات ضلعی مجسٹریٹ اور کلکٹر ڈی ڈی جڈیجہ نے جاری کئے تھے۔ مقامی افراد ( مسلمانوں ) نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہدامی کارروائی 100 ایکر اراضی پر کی گئی۔ یہ وہ اراضی ہے جس پر شری سومناتھ ٹرسٹ اور ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا ہے۔ جہاں تک شری سومناتھ ٹرسٹ کا سوال ہے یہ ایک مذہبی ٹرسٹ ہے جس کی قیادت وزیر اعظم نریندر مودی کرتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے بزرگ لیڈر ایل کے اڈوانی اس کے ٹرسٹی ہیں۔
کوئی وارننگ نہیں‘ کوئی وقفہ نہیں دیا گیا:… عبدالحمید نے گلوگیر لہجہ میں بتایا کہ ان لوگوں ( حکومت ) نے اللہ کے ایک ولی کی مزار کو زمین دوز کیا ہے، اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ عبدالحمید خود حکومت گجرات کی انہدامی کارروائی میں اپنا گھر کھوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام نے صبح 6 بجے انہدامی کارروائی شروع کی، بچے سورہے تھے، ہمیں ایک وارننگ تک نہیں دی گئی یہاں تک کہ کپڑے لینے کا وقت تک نہیں دیا گیا، ہمارے پاس جو کچھ تھا اور ہم نے جو کچھ کمایا تھا اب ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا۔ عبدالحمید حکومت گجرات کی اس انہدامی کارروائی سے پوری طرح تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ اب وہ اور ان کے ارکان خاندان ایک پلاسٹک شیٹ کے نیچے رہ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جس وقت حکام ہمارے گھروں اور مساجد و قبرستان کو منہدم کررہے تھے شدید بارش ہورہی تھی۔ اس وقت ان لوگوں نے ہمارے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہمیں انسان تک نہیں سمجھا۔ پربھاس پٹن میں کئی ایک تاریخی درگاہوں حاجی منگرول درگاہ، شاہ سِلار درگاہ، غریب شاہ درگاہ اور جعفر مظفر درگاہ پر بلڈوزر چلائے گئے۔ مقامی لوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ حاجی منگرول شاہ درگاہ سابق ریاست جوناگڑھ کا حصہ تھی۔1924 کے ریوینیو ریکارڈ میں اس کا اندراج ہے۔
گجرات پردیش کانگریس کمیٹی کے نائب صدر نصرت پانجہ کا جو خود ویراول کے رہنے والے ہیں کہنا ہے کہ ان انہدامی کارروائیوں کو مقامی مسلم آبادی میں خوف و دہشت پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان اراضی کا تخلیہ کردیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جن عمارتوں اور ڈھانچوں کو منہدم کیا گیا وہ تاریخی اور قدیم عمارتیں تھیں۔ حکام نے گھروں کے ساتھ ایسی قدیم عمارتوں کو بھی زمین دوز کردیا جنہیں بلا شک و شبہ اسلامی تاریخ کی نمائندہ عمارتیں کہا جاسکتا تھا۔ یہ درگاہیں اس علاقہ میں 800 سال سے ہیں اور نواب جوناگڑھ کی حکمرانی کے دوران اس کے قانونی دستاویزات بھی تیار کی گئی تھیں۔ کلکٹر اور ریاستی حکومت ان قانونی طور پر جائز عمارتوں کو زمین دوز کیوں کررہے ہیں اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
انہدامی کاروائی : … انہدامی کارروائی کے دوران ملنگ رضوان کے مکان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ رضوان ایک غریب ماہی گیر ہے اب وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ لکڑیوں کے ٹکڑوں اور پلاسٹک شیٹس کے ذریعہ بنائی گئی جھونپڑی میں وہ رہ رہا ہے۔ پلاسٹک کی یہ شیٹس اس قدر خراب حالت میں ہیں کہ وہ تیز ہواؤں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ رضوان کہتا ہے کہ آخر ہم نے کونسا جرم کیا ہے؟ ہم صرف اپنی زندگیاں گذاررہے تھے، اپنے آپ میں مگن تھے دوسروں کے معاملات میں مداخلت کئے بناء ہم اپنی زندگیوں کی گاڑی کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ان لوگوں کا اصل مقصد صرف اور صرف سومناتھ مندر کے قریب اراضی کو صاف کرنا تھا اور ان لوگوں نے قانونی طور پر جائز ہمارے مکانات کو منہدم کردیا۔ وہ مقامی لوگ جو اپنے مکانات، مساجد ، درگاہوں کو منہدم ہوتے دیکھ چکے ہیں دی وائر کو بتایا کہ ان لوگوں نے سنا تھا کہ ملک بھر میں مسلمان اس طرح کی غیر قانونی کاروائیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکانات سے محروم ہورہے ہیں۔ ریاست اور اس کے حکام مسلمانوں کو ان کے اپنے مکانات سے محروم کررہے ہیں لیکن ان لوگوں نے کبھی اس بات کا تصور نہیں کیا تھا کہ ایک دن ان کے مکانات، مساجد ، درگاہوں اور قبرستانوں پر بھی تعصب و جانبداری کے باعث بلڈوزر چلائے جائیں گے، ان کی املاک کو زمین دوز کیا جائے گا۔
قانونی مخمصہ : … عجلت سے انہدامی کارروائی کی گئی اس پر گجرات کی میناریٹی کوآرڈینیشن کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔ یہ کمیٹی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی وکالت کرتی ہے۔ 28 ستمبر کو خود ایم سی سی نے چیف منسٹر بھوپیندر پٹیل کو مکتوب لکھتے ہوئے مسلمانوں سے انصاف کرنے کا مطالبہ کیا۔ مکتوب میں لکھا گیا کہ پربھاس پٹن میں کئی ایک قدیم درگاہوں کو زمین دوز کردیا گیا، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ حاجی منگرولی شاہ درگاہ 1924 سے جوناگڑھ اسٹیٹ کے ریوینیو ریکارڈ میں موجود ہے۔ درگاہوں کے انہدام کئے جانے کے خلاف اولیائے دین کمیٹی گجرات ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی تھی لیکن اس کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ثاقب انصاری کا کہنا ہے کہ حکام نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ گذشتہ ہفتہ سپریم کورٹ میں تحقیر عدالت کی درخواست داخل کی جس پر عدالت عظمیٰ نے حکومت گجرات سے اس کا ردعمل جاننا چاہا اور جواب طلب کیا ہے۔ 30 ستمبر سے ضلع میں پی این ایس ایس کی دفعہ 163 نافذ کی گئی ہے جس کے تحت پانچ یا اس سے زائد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔