مودی کی ریاست کے مسلمان جھونپڑ پٹی اور گندہ بستیوں تک محدود، نئی کالونیوں میں گھر دینے سے ہندوؤں کا انکار، کاروبار کیلئے بھی جگہ دینے سے گریز
حیدرآباد 10 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات کے مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کے بارے میں کوئی ڈر و خوف یا فکر و تشویش بالکل نہیں ہے وہ اس لئے نہیں کہ گجرات کے ان مسلمانوں کے پاس تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ پہلے ہی سے دوسرے درجہ کے شہری بنائے جاچکے ہیں چنانچہ اب مزید کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔ ملک بھر میں غیر معمولی تشہیر شدہ ’ترقی کیلئے گجرات کا نمونہ‘ ان مسلمانوں کو چھوئے بغیر ان کے سروں کے اوپر سے گذر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان جو 2002 ء کے بدترین فسادات سے قبل شہری سہولتوں سے آراستہ محلہ جات کے ٹھیک ٹھاک گھروں میں رہا کرتے تھے، حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور خود تمام گجراتیوں کی طرف سے اب جھونپڑپٹی اور سلم علاقوں تک محدود کردیئے گئے ہیں۔ بی جے پی کی ڈھائی دہائیوں (ربع صدی) سے جاری حکمرانی پھر ستم بالائے ستم 18 سال پہلے ہوئے فسادات نے مسلم خاندانوں کے ارکان کو سرکاری سرپرستی میں منظم کردہ منظم و منصوبہ بند مظالم کے تحت نہ صرف گھروں، ملازمتوں اور کاروبار سے محروم کردیا گیا بلکہ اُن سے احساس تحفظ و بہتر مستقبل کی اُمیدیں بھی چھین لی گئیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سلم بستی جوہا پورہ میں رہنے والے ایک فینانشیل کنسلٹینٹ محمد عرفان نے کہاکہ ہم کو پہلے ہی گندہ بستیوں اور جھونپڑ پٹی کا ساکن بنایا جاچکا ہے اور ہم عملاً ’’ڈیٹنشن سنٹر‘‘ میں رہ رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھئے جن میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں۔ گجرات میں ’مشتبہ‘ سمجھے جانے والے افراد کے لئے علیحدہ ’ڈیٹنشن سنٹر‘ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ (حکام) پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ یہاں کے ’مسلمان‘ شہری نہیں ہیں۔ اب یہ کہنے کے لئے اُنھیں (حکام) کو مزید نیا این آر سی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔
محمد عرفان نے مزید کہاکہ ’2002 ء کا تشد، تخلیہ اور علیحدگی کی تاریخ تھی جب ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا گیا اب یہاں کوئی مشترکہ آبادیاں نہیں ہیں۔ یہ ایک غیر سرکاری قاعدہ بن گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی آبادیوں میں رہنے کی اجازت نہیں رہی ہے‘۔ عرفان نے کہاکہ وہ جدید کالونیوں میں ایک فلیٹ خریدنا چاہتے تھے لیکن پروموٹر نے جب ان کا نام سنا تو فوراً کہہ دیا کہ ’یہ آپ کے لئے نہیں ہے‘۔ حتیٰ کہ مسلم افراد ان کالونیوں میں کرایہ کے گھر بھی نہیں لے سکتے۔ اب تو صرف ویجیٹرینس (سبزی خور) ہونے کا بہانہ بنانا باقی نہیں رہا ہے۔ بزنس میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مسلمان اب کانچ و فولاد کے بڑے خوبصورت مالس میں شاپس لیز پر نہیں لے سکتے۔ جی ہاں یہ بھی ایک غیر معلنہ جو باضابطہ درج تو نہیں ہے لیکن اس پر کسی درج شدہ قانون کی طرح عمل ہوتا ہے۔ مسلم تاجرین کے لئے صرف گندہ بستیوں اور سلم علاقوں میں قدیم وضع کی دوکانات ہیں جہاں گاہک بھی مسلم برادری کے ہی آتے ہیں۔ محمد عرفان نے ایسے ہی بے شمار واقعات بیان کرتے ہوئے آخر میں سوال کیاکہ ’اس سے اور بھی بدتر کونسا ڈیٹنشن کیمپ ہوسکتا ہے‘۔ اُنھوں نے کہاکہ ’بی جے پی فسادات اور این آر سی کے ذریعہ ملک بھر میں ایسی ہی کہانی دوہرانا چاہتی ہے چنانچہ خبردار رہیں!‘۔