نئی دہلی۔2جنوری (سیاست ڈاٹ کام) تقریباً تین دہائی سے عسکریت پسندی سے متاثرجموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج عسکریت پسندوں پربھاری پڑی اور اس نے جہاں 250 سے زائد عسکریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا وہیں عسکریت پسندوں سے لوہا لیتے ہوئے 90 سے زائد سلامتی دستوں کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ۔ ساتھ ہی 37 شہری بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔2018 میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان کی جانب سے بے تحاشہ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور جولائی میں ہی یہ تعداد 1400 سے زائد ہو گئی تھی۔ ریاست میں لمبے وقفے کے بعد سابق نوکر شاہ کے بجائے کسی سیاسی رہنما کو گورنر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سال کے آغاز میں اتحادی حکومت کے شراکت دار پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان بڑھتی چپقلش کے سبب جون میں حکومت گر گئی۔ ریاست میں گورنرراج نافذ کردیا گیا جو سال ختم ہوتے ہوتے صدر راج میں تبدیل ہو گیا۔ صدر راج نافذ ہونے کے وقت اسبلی کو برقرار رکھا گیا تھا لیکن دسمبر کے آغاز میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم ریاست میں اراکین کی متوقع خرید و فروخت کے سبب اٹھایا گیا۔ سالانہ امرناتھ یاترا پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوئی ۔ریاست میں تقریبا 13 برسوں کے بعد بلدیاتی انتخابات کے سات برس بعد پنچایتی انتخابات کا انعقاد کامیابی سے کرایا گیا۔ مرکز نے نرم رخ اختیار کرتے ہوئے جموں و کشمیرمیں رمضان کے دوران سکیورٹی دستوں کے آپریشن کو روک دیا گیا۔ سرحد پار سے جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے سبب اس مرتبہ پولیس اور فوج نے مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خلاف سخت رخ اپناتے ہوئے ‘آپریشن آل آؤٹ’ شروع کیا۔ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف بھی سخت رویہ اپنایا گیا۔
خفیہ اور تفتیشی ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے فنڈنگ نیٹورک کی کمر توڑنے کے لیے ‘اینٹی ٹیرر فنڈنگ’ مہم چلاکر حوالہ پر قدغن لگا دی گئی۔ان کاروائیوں کی وجہ عسکریت پسندوں نے پوری طاقت سے بار بار گھاٹی میں تباہی پھیلانے کی کوشش کی۔