گرتی ہوئی دیوار کا ہمدرد ہوں لیکن

   

اپوزیشن اتحاد … حقیقت یا فسانہ
کشمیر … ناانصافی کے دو سال مکمل

رشیدالدین
’’بیکار مباش کچھ تو کیا کر‘‘ قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو دیکھ کر ہمیں فارسی کا یہ مصرعہ یاد آگیا۔ اپوزیشن اتحاد کا نعرہ ملک میں وقفہ وقفہ سے سنائی دیتا رہا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ نعرہ سیاسی بیروزگار قائدین کا مشغلہ بن چکا ہے ۔ ہر چند دنوں میں کوئی ایک قائد یہ نعرہ لگاکر اپنی قیادت منوانے کی کوشش کرتا ہے اور چند ایک ملاقاتوں اور اجلاسوں کے بعد اتحاد کا نعرہ لگانے والے خود منتشر ہوجاتے ہیں۔ اتحاد کا نعرہ اپنی دکان چمکانے اور عوام میں خود کو متعارف کرانے کی کوششوں کے سواء کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی اتحاد کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو عوام بظاہر متحد لیکن منتشر طاقتوں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور مختصر مدت میں ان کی امید مایوسی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کسی ریاست میں کسی پارٹی کو بی جے پی کے خلاف کامیابی حاصل ہوجائے تو اس کے قائد قومی قیادت کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ ان دنوں ممتا بنرجی اپوزیشن اتحاد کے نام پر ایسی طاقتوں سے امیدیں وابستہ کر رہی ہیں جو عوامی تائید سے محروم ہیں۔ اتحاد کے نام پر کب تک عوام کو سبز باغ دکھاتے ہوئے خوش فہمی میں رکھا جائے گا ۔ اتحاد کا نعرہ لگانا تو آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں کی تکمیل مشکل ہے۔ اتحاد کیلئے جذبہ ایثار و قربانی ضروری ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ ہر پارٹی خود کو دوسرے سے برتر اور ہر قائد خود کو دوسرے سے زیادہ قابل اور پاپولر تصور کرتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی پارٹی کی نمائندگی نہ ہو لیکن رویہ اور اکڑ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جب کبھی ملک میں اپوزیشن اتحاد کی مساعی کی گئی ، وہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکی کیونکہ اتحاد کا مطلب میری قیادت تسلیم کرو ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو اتحاد کا نعرہ حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے مخالف کو نیچا دکھانے کا جذبہ کارفرما ہو اور مفادات کا ٹکراؤ آجائے تو اتحاد کیسے ممکن ہے۔ مغربی بنگال میں کامیابی سے سرشار ممتا بنرجی نے قومی سطح پر بی جے پی سے مقابلہ کیلئے اپوزیشن میں اتحاد کی مساعی کی ہے ۔ انہوں نے سونیا گاندھی ، راہول گاندھی ، اروند کجریوال اور دیگر قائدین سے ملاقات کی اور 2024 ء لوک سبھا انتخابات کیلئے مضبوط متبادل کی تجویز پیش کی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں ممتا بنرجی کی کوشش کو بہتر شروعات کہا جاسکتا ہے اور عوام کی نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں ہر کسی کو تلخ حقائق تسلیم کرنا پڑے گا ۔ قومی سطح پر کانگریس اور بی جے پی کی قیادت میں دو علحدہ اتحاد یو پی اے اور این ڈی اے پہلے سے موجود ہیں۔ اتحاد کے نام پر اب کونسا تیسرا محاذ تشکیل پائے گا ؟ اتحاد کی خواہشمند تمام پارٹیوں میں سوائے کانگریس کے دوسری علاقائی پارٹیاں ہیں۔ قومی پارٹی کی قیادت میں اتحاد کامیاب ہوسکتا ہے ۔ یو پی اے میں کئی علاقائی پارٹیاں موجود ہیں اورجو پارٹیاں شامل نہیں وہ شمولیت اختیار کریں یا پھر باہر سے تائید کا اعلان کریں تو اتحاد کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہاں تو علاقائی پارٹیوں کے قائدین کو قومی قیادت کا شوق چرایا ہے اور اس طرح کا جذبہ زمینی حقیقت سے منہ موڑنا ہے۔ این ٹی آر اور ایم جی رامچندرن نے آندھراپردیش اور ٹاملناڈو کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی تھی لیکن انہیں قومی سطح پر قبول نہیں کیا گیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اتحاد کا نعرہ بیکاری کا مشغلہ اور ٹائم پاس کے بجائے ٹھوس ایجنڈہ اور مقاصد کے ساتھ ہو۔ جب تک ہر کوئی اپنی طاقت کا محاسبہ نہ کریں اس وقت تک دوسرے کی قیادت تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ اتحاد کی خواہشمند جماعتیں ریاستوں تک محدود ہیں اور کوئی بھی قائد قومی سطح پر عوامی مقبولیت نہیں رکھتا۔ بائیں بازو کی جماعتیں جو کبھی قومی سطح پر بادشاہ گر کے موقف میں تھیں ، آج اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ کمیونسٹ جماعتیں صرف کیرالا تک سمٹ چکی ہیں اور ان کی قومی مسلمہ حیثیت بھی باقی نہیں رہی۔ نوٹ بندی ، معاشی بحران ، غربت ، بیروزگاری ، بیماری اور مہنگائی جیسے مسائل کے باوجود ملک میں نریندر مودی کا متبادل اپوزیشن کے پاس نہیں ہے ۔ بی جے پی کا موقف ابھی اس قدر کمزور نہیں ہوا کہ اپوزیشن اتحاد شکست دے سکے۔ اپوزیشن اتحاد کے باوجود بی جے پی کو فوری کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا ۔ اپوزیشن اتحاد کی فوری اور پہلی آزمائش اترپردیش میں ہوگی جہاں یوگی ادتیہ ناتھ کو شکست دینا آسان نہیں ۔ سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس تینوں کا موقف کمزور ہے ۔ اکھلیش یادو کی مقبولیت اور مایاوتی کی رائے دہندوں پر گرفت باقی نہیں رہی۔ کانگریس میں نئی جان پھونکنے کیلئے پرینکا گاندھی میدان میں ہیں ۔ کانگریس کے کمزور ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے یوراج راہول گاندھی کو خود اپنے حلقہ میں شکست ہوگئی اور کیرالا نے انہیں بچا لیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اترپردیش میں منتشر اپوزیشن بی جے پی کے لئے خطرہ نہیں بن سکتی۔ ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس میں انتخابی مفاہمت کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور مخالف بی جے پی ووٹوںکی تقسیم کا فائدہ یوگی ادتیہ ناتھ کو ہوسکتا ہے ۔ اپوزیشن کو پہلے اترپردیش میں بی جے پی سے متحدہ مقابلہ کی تیاری اور تجربہ کرنا چاہئے۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے اپوزیشن نے مودی بمقابلہ انڈیا کا نعرہ دیا ہے ۔ لاکھ مسائل اور پریشانیوں کے باوجود عوام میں مخالف مودی لہر ایسی نہیں ہے جو بی جے پی حکومت کے زوال کا سبب بنے ۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کانگریس خود کو بی جے پی کا متبادل ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ کانگریس کے درون خانہ اختلافات اور قیادت سے ناراضگی نے بھی عوام میں پارٹی کی ساکھ متاثر کردی ہے۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے غیر کانگریس اور غیر بی جے پی جماعتوں پر مشتمل فیڈرل فرنٹ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس مہم کے تحت انہوں نے مغربی بنگال ، ٹاملناڈو اور اڈیشہ کا دورہ کرتے ہوئے ممتا بنرجی ، کروناندھی اور نوین پٹنائک سے ملاقات کی تھی۔ کہاں ہے فیڈرل فرنٹ ؟ دراصل مرکز سے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس طرح کے فرنٹ کا نعرہ لگایا گیا اور پھر اچانک سناٹا ہوگیا۔ الغرض قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کی کوشش بہتر ضرور ہے لیکن یہ نتیجہ خیز ہونی چاہئے ۔ قیادت کی دعویداری سے قبل پارٹی کو اپنی طاقت اور مقبولیت کا خود محاسبہ کرنا چاہئے ۔ سیاست میں ہر کسی کو سینئر کہلانے کا شوق ہوچکا ہے ۔ گلی سے لے کر دلی تک قائدین اپنے آپ کو سینئر اور تجربہ کار کہلانا پسند کرتے ہیں۔ جو شخص جتنے زیادہ الیکشن ہارچکا ہے ، وہ اتنا زیادہ سینئر کہلاتا ہے۔ شائد انتخابی شکست کے تجربہ کو سیاسی تجربہ تصور کیا جارہا ہے ۔ شکست خوردہ عناصر میں عہدوںکی دوڑ ہمیشہ زیادہ دیکھی گئی ہے۔ مبصرین نے تجویز پیش کی ہے کہ قومی سطح پر محاذ کی تیاری کے بجائے ریاستوں کی سطح پر انتخابی مفاہمت کے ذریعہ بی جے پی کا مقابلہ کیا جائے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں ناانصافی کے دو سال 4 اگست کو مکمل ہوجائیں گے۔ دو سال قبل مودی حکومت نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی تکمیل کرتے ہوئے کشمیریوں کے جذبات اور احساسات کی پرواہ کئے بغیر خصوصی موقف ختم کردیا تھا۔ قانون سازی کے ذریعہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور کشمیریوں کو حاصل مراعات یہ کہتے ہوئے ختم کردی گئیں کہ ہندوستان کے ہر شہری کو کشمیر پر اتنا ہی حق ہے جتنا کشمیریوں کا ۔ بی جے پی نے جدوجہد آزادی اور ملک کی تقسیم کے وقت کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے شریفانہ معاہدہ کو فراموش کردیا۔ مسلم ا کثریتی ریاست کے باوجود کشمیریوں نے پاکستان میں شمولیت کے بجائے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا۔ ہندوستان کے ساتھ کشمیریوں کے احسان اور رواداری کے جذبہ پر انہیں خصوصی مراعات دی گئی تھیں جو سنگھ پریوار کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھیں ۔ ریاست کی تقسیم کے بعد سیاسی اور عوامی قائدین کو دیڑھ سال تک جیلوں میں بند رکھا گیا ۔ آج بھی کشمیری کھلے عام آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے سے محروم ہیں۔ کشمیر کی صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔ عوام پر پابندیاں تو دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے سیاسی قائدین کا اجلاس طلب کرتے ہوئے ریاست کا موقف بحال کرنے کا تیقن دیا تھا۔ وزیراعظم کے اجلاس کو دو ہفتے گزر گئے لیکن آج تک ان کے وعدوں کی تکمیل میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ کشمیریوں کو علحدہ ریاست سے زیادہ خصوصی موقف کی ضرورت ہے ۔ خصوصی موقف کے بغیر ریاست کی تشکیل کشمیریوں کے ساتھ انصاف تصور نہیں کی جاسکتی۔ مودی نے کشمیریت ، جمہوریت اور انسانیت کے نعرہ کو فراموش کردیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ گولی نہیں بلکہ میٹھی بولی کا سلوک کیا جائے گا۔ کشمیریوں کو انتظار ہے کہ ان کے نمائندے خصوصی موقف کی بحالی میں کب کامیاب ہوں گے۔ مظفر وارثی نے کیا خوب کہا ہے ؎
گرتی ہوئی دیوار کا ہمدرد ہوں لیکن
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہیں کرتا