محمد مصطفی علی سروری
ساجدہ بڑی پریشان تھی ۔ اس کا شوہر 15دن پہلے ہی ملازمت کے لیے باہر گیا تھا اور اس کی ساس کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ۔ ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ شوگر، بی پی اور دیگر ٹسٹ کروانے کے بعد ساجدہ کے نندوں نے اپنی ماں کو گھر واپس لاتے لاتے شام کردی۔ بڑی نند تو شام میں ہی واپس اپنے سسرال چلی گئی جبکہ چھوٹی نند اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنے مائیکے میں ہی ٹھہر گئی اور سب سے بڑی بات جو ساجدہ کو پریشان کر رہی تھی کہ ڈاکٹر نے ساجدہ کی ساس کو گھر کے کام کاج کرنے سے منع کردیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ساجدہ کو گھر کا کام کاج نہیں آتا تھا لیکن انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران اس کی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز تھی۔ اس نے ایمسیٹ میں بھی ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی اور فری سیٹ میں عثمانیہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا تھا۔ ساجدہ کا شوہر سعودی عرب میں کر رہا تھا اور اس نے وعدہ بھی کیا کہ وہ سعودی جاکر جلد ہی ساجدہ کو اپنے ہاں بلالے گا۔ ساجدہ کے سسرال میں پہلے ہی ہفتہ ساس نے واضح کردیا تھا کہ ان کے ہاں نوکرانی تو ہے مگر اس کو چولہے کے برتن دھونے کا ہی کام کرنا ہے۔ وہ پکوان نہیں کرتی کیونکہ ساجدہ کے سسرے کو کام والی کا پکایا کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ اس لیے ساجدہ کو آگے چل کر چولہے میں پکانے کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔ ساجدہ کے والد نے اپنی لڑکی کی حمایت میں بات بھی کی کہ ان کی بچی پکوان میں زیادہ مہارت نہیں رکھتی۔ اگر اس کو تھوڑا سیکھنے کا موقع دیا جائے تو وہ اپنی ذمہ داری نبھالے گی۔ لیکن ساجدہ کی نندوں کا کہنا تھا کہ ساجدہ جتنا جلد ہوسکے پکوان سیکھ لے کیونکہ وہ باہر چلی بھی گئی تو وہاں پر کام کرنے والی نوکرانی تو ملنے والی نہیں۔ اپنا کام خود کرنا پڑتا ہے۔ وہ تو ساجدہ کی ساس نے اس کو کھانے، پکانے میں مدد کرنا شروع کیا تھا وار پھر ایک دن ساجدہ کی چھوٹی نند نے جب دیکھا کہ اس کی ماں بھاوج کو کھانے، پکانے میں مدد کر رہی ہے، بس دوسرے دن ہی اچانک اسی چھوٹی نند نے فون کر کے اپنی بڑی بہن کو بلا لیا اور ماں کی طبیعت خراب ہے، ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں بول کر ساجدہ کی ساس کو باہر لے کر چلے گئے اور شام میں جب واپس آئے تو ڈاکٹر کا مشورہ سنادیا کہ ڈاکٹر نے ان کی ماں کو آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس لیے اب وہ چولہے میں نہیں جاسکتی ہیں۔ اب ساس، سسرے اور دو چھوٹے دیوروں کا سارا پکوان اکیلے ساجدہ کو ہی کرنا تھا۔
ساجدہ کو سارا کھیل سمجھ میں آگیا کہ اصل میں اس کی چھوٹی نند ہے جو یہ سارا کھیل رچ رہی ہے۔ ساجدہ نے اپنی ماں کو فون پر بتلایا کہ اب سارا پکوان اسی کو کرنا ہے۔ اس لیے وہ فون پر اس کو مشورہ دے۔ ساجدہ جب اپنے موبائل فون پر بات کرتے ہوئے چولہے میں تھی تو اچانک چھوٹا دیور آیا اور بولنے لگا کہ بھابھی باجی بول رہی ہیں کہ فون پر بعد میں بات کرنا، پہلے ٹفن بناکر دے دو۔
قارئین اس سارے قصے میں صرف لڑکی کا نام فرضی ہے، بقیہ تو وہی ساری تفصیلات ہیں جو ہمیں بتلائی گئیں اور اس سارے قصے میں اگرچہ ایک گھر کے کردار ہیں لیکن ایسے کردار اور رویئے ہر دوسرے گھر میں دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں پر ساس بننے کے ساتھ ہی خواتین چولہے میں میں اپنی بہوئوں کا ہاتھ بٹانا گوارہ نہیں کرتی بلکہ ڈاکٹروں کی جانب سے مشورہ آجاتا ہے کہ اب انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ کیا یہ اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے جو ہمارے گھروں میں چین و سکون کو غارت کرنے کے لیے رچی گئی ہے؟
آیئے اب میں آپ کا تعارف 91 برس کی ایک ایسی خاتون سے کروانا چاہتا ہوں جو عمر کے اس حصے میں بھی محنت، مزدوری کر رہی ہے اور وہ بھی ایسی محنت کے دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ جی ہاں کیتھرینا کٹوکرن نام کی یہ ملیالی خاتون تعمیراتی سامان ڈھونے کا کام کرتی ہے اور جس وقت ٹی این ایم کی نمائندہ سری دیوی اس خاتون سے ملاقات کرنے پہنچی تب کیتھرینا گھروں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے کنکریٹ اٹھانے کام کر رہی تھی۔ جب 91 سالہ کیتھرینا سے پوچھا گیا کہ وہ عمر کے اس حصے میں بھی کام کیوں کر رہی ہیں تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں تو مرتے دم تک کام کرتی رہوں گی یا پھر میں بستر تک محدود ہوجائوں گی۔ اس نے بتلایا کہ وہ گذشتہ 60 برسوں سے کنکریٹ اٹھانے کا کام کر رہی ہے۔ اس کے خاندان میں 4 بچے اور 9 بچوں کے بچے اور 14 پوترے، پوتریاں ہیں اور وہ کماکر ان سب لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔ ٹی این ایم نے اپنی 23؍ جولائی کی 2019ء کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کیتھرینا کی صبح 5 بجے کے الارم سے شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ تیار ہوجاتی ہے تو پھر آٹو کے ذریعہ کام کے لیے نکل پڑتی ہے۔ صبح میں صرف کافی پی کر کام چلانے والی کیتھرینا کام کے دوران کنکریٹ بھرے تھیلے سرپراٹھاکر کئی کئی سیڑھیوں تک لے جاتی ہے اور پھر مسکراتے ہوئے نیچے آکر دوسری چکر کی تیاری کرتی ہے۔
کیرالہ کے جس علاقے میں کیتھرینا کام کرتی ہے وہاں کے سارے کنٹراکٹرس اس سے واقف ہیں اور بڑی خوشی سے اس کو اپنے ہاں کام کے لیے بلاتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ صرف خود محنت سے کام کرتی ہے بلکہ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی ترغیب دلاتی ہے۔کیتھرینا کے ساتھ کام کرنے والوں میں اس کی 56 سالہ بیٹی فلومینا بھی شامل ہے۔
کیتھرینا نے 60 برس تک مسلسل کام کر کے اپنے بچوں کے لیے چار گھر تعمیر کروائے اور آج بھی محنت کر کے کمانے کے بعد ساری رقم اپنے بچوں اور ان کے بچوں پر خرچ کردیتی ہے اور کیتھرینا کہتی ہے کہ جب تک جان میں جان ہے میں کام کرتی رہوں گی۔
ناشکری کا ایک لفظ نہیں۔ خدائے تعالیٰ سے شکایت کا ایک حرف نہیں۔ ٹی این ایم کے نمائندے نے جب کیتھرینا کی تصویر کھینچی تب بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی سجی تھی۔
مسلمانوں کے کتنے گھر ایسے ہیں جہاں پر چین، سکون صرف اس لیے نہیں کہ ساس بہو کے درمیان کشیدہ تعلقات ہیں۔ ذرا غور کیجیے گا جس دین اسلام نے نکاح کو آسان بنایا تھا اس دین اسلام کے ماننے والوں کے لیے گھروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی رہنمائی نہ ہو ایسا ہوسکتا ہے؟
یقینا !دین اسلام میں مشترکہ خاندان کا تصور نہیں ہے۔ ساس، سسرے کی خدمت بہو پر نہیں، بیٹے پر فرض ہے۔ مگر جب بہو بالکلیہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اپنے سسرال کے کام کاج کے لیے آمادہ ہوتی ہے اور اللہ کی اور اپنے شوہر کی رضا کے لیے ساس، سسرے کی خدمت کے لیے تیار ہوجاتی ہے تو اس کے لیے مسائل پیدا کرنا کس یہودی تنظیم کی سازش ہے۔ ایک قاری نے تو مجھے بتلایا کہ ان کی لڑکی شادی کے بعد سسرال میں ہی مقیم تھی، شوہر کے باہر چلے جانے کے بعد گھر سے نوکرانی کو نکال دیا گیا اور بہو پر تحدیدات عائد کیے گئے کہ وہ دن میں نہ تو اپنے کمرے کا دروازہ بند رکھے گی اور نہ ہی کمرے کا پردہ چھوڑے گی۔ یہاں تک کہ بہو کو کمرے میں فون پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ خاص کر شوہر سے بات کرنا ہے تو ساس کی موجودگی میں بات ہو۔ پانچ سال ساس سسرے کے ساتھ رہنے کے بعد جب دو بچوں کے ساتھ خراب طبیعت کی بنیادوں پر بچی الگ ہوئی تو اس پر الزام کہ ہمارے بچے کو ورغلاکر اور دوا ڈال کر الگ کروانے والی ان کی بہو بھی اپنی زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ پائے گی۔
ڈاکٹر کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے گھنٹوں پارکوں اور میدانوںمیں چہل قدمی کرنے والی خواتین اس بات کو کیوں بھول جاتی ہیں کہ اگر زیادہ عمر ہونے کے باوجود جب وہ لوگ گھر سے باہر جاکر روزانہ ہلکی ورزش اور چہل قدمی کرسکتی ہیں تو گھرمیں اپنے ہی چولہے میں اور اپنی ہی بہوئوں کا، گھر کے کام کاج میں ہاتھ کیوں نہیں بٹاسکتی ہیں۔
ذرا سوچئیے گا اور غور کیجیے گا۔ مسلمانوں کو آج دنیا بھر میں ہر جگہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلمانوں کے خون کا ہر کوئی پیاسا بناہوا ہے، ایسے میں کیا ہم کم سے کم اپنے گھروں، اپنے خاندانوں کو پرسکون نہیں بناسکتے۔ دنیا بھر میں امن کی خواہش رکھنا الگ بات ہے، اپنے گھر کو اپنے ہی ہاتھوں سے پر امن اور پرسکون رکھنا ہمارے بس کی بات ہے۔کیا ہم نے اس تعلق سے غور کیا ہے؟ جب مسلمان اپنے گھروں کے مسائل کو گھروں کی چار دیواریوں میں خاندان کے بڑے بزرگوں کے درمیان بیٹھ کر حل نہیں کرتے تب یہی مسائل پولیس اسٹیشن تک جاتے ہیں اور عدالت تک پہنچتے ہیں اور پھر عدالت کیا کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایسے ہی ایک کیس میں دیئے گئے فیصلے نے ہی تو طلاق ثلاثہ پر قانون سازی کے لیے راہ ہموار کی ہے؟
ذرا غور کیجیے گا، امت مسلمہ کو دنیا کی نظروں میں رسوا ہونے سے بچانے کی کوشش ہم میں سے ہر ایک کو کرنی ہوگی۔ کیا ہم تیار ہیں؟
اب دیکھنا ہے جاکہ ٹھہرتے ہیں ہم کہاں
گرتے ہی جارہے جو گرے آسماں سے ہم
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]