گرگاؤں میں دائیں بازو عناصر کی مسلمانوں سے دشمنی

   

پروفیسر اپوروانند
ہندوتوا قائدین اب ہندو تہواروں کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ان تہواروں کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور اقلیتوں کو مزید الگ تھلگ کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں حالیہ عرصہ کے دوران منعقد شدنی گوردھن پوجا کی مثال دی جاسکتی ہے۔ گوردھن پوجا ملک کی ہندی پٹی میں بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے۔ مسلمان جب گرگاؤں سٹیلائٹ سٹی کے سیکٹر 12 اور دوسرے 36 مقامات پر (ان مقامات پر انتظامیہ نے ہی مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی تھی) نماز جمعہ ادا کرنے لگے تب ان فرقہ پرست طاقتوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے۔ انہیں پریشانی ہونے لگی اور پھر ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا۔ گروگرام میں جہاں مسلمان نماز جمعہ ادا کرتے تھے وہاں خلل پیدا کی گئی اور پھر اس مقام پر دائیں بازو کے گروپوں نے پوجا کا اہتمام کیا۔ ان ہندوگروپوں نے عام مقامات پر نماز کی ادائیگی کے خلاف نعرے بھی بلند کئے۔ ہم سب نے اس تعلق سے خبریں اخبارات میں پڑھی ہیں اور ٹیلی ویژن چیانلوں یہاں تک کہ سوشل میڈیا سائٹ پر ان کا مشاہدہ کیا ہے کہ گرگاؤں کے سیکٹر 12 میں دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے گوردھن پوجا کرنے کا اعلان کیا اور اعلان کے مطابق گووردھن پوجا کر بھی ڈالی۔ ہم میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے گوردھن پوجا کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ گوردھن پوجا بھائی دوج بھائی پھوٹا جیسے تہواروں کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ یہ تہوار دراصل بھائیوں، بہنوں کے درمیان رشتوں کو لیکر ہے۔ جو لوگ بہار اور پورانچل سے تعلق رکھتے ہیں انہیں یہ معلوم ہوگا کہ گوبر سے زمین پر تصاویر یا مورتیاں بتائی جاتی ہیں اور یہ کام محلہ کی عورتیں اکٹھا ہوکر کرتی ہیں۔
میں خود بہار سے تعلق رکھتا ہوں میں حیرت میں پڑ گیا کہ گوردھن پوجا کے دن جئے سیارام کے نعرے لگائے گئے۔ میں سوچنے لگا کہ گوردھن پوجا کے دن جئے سیارام کے نعروں کا کیا مطلب؟ لیکن اب تو یہ حال ہوگیا ہیکہ درگا تہوار ہو یا کرشن کا تہوار شری رام کے نعرے لگادیئے جاتے ہیں۔ گوردھن پوجا دراصل سیکٹر 12 کی اسی جگہ کی فتح سمجھ لی گئی جہاں کچھ برسوں سے مسلمان نماز جمعہ ادا کرتے آرہے تھے۔ دائیں بازو کی ہندو توا تنظیموں نے اس جگہ کو مسلمانوں سے چھین لینے کی کوشش کی تھی۔ حسن اتفاق سے دوسرے دن دیپاولی تھی، بہرحال مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کے لئے کوئی بھی ایک تہوار استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ایک دیوتا کے نام کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو بیدخل کیا جاسکے، اس لئے گوردھن پوجا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان لوگوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس مقام پر مسلمان نماز جمعہ ادا نہ کریں۔
اس تمام گڑبڑ کی ایک چھوٹی سی تاریخ ہے وہ یہ کہ سال 2018 سے گرگاؤں میں اچانک ایک مہم شروع کی گئی۔ آپ کو بتادوں کہ گرگاؤں میں بہت ساری خالی جگہ ہے۔ وہاں مقامی لوگوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور دوسرے علاقوں سے بھی بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل بہت سارے لوگ یہاں کے کارخانوں، فیکٹریوں اور کمپنیوں میں کام کرتے ہیں جن میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کے سب شامل ہیں۔ تمام مذاہب کی عبادتوں کے طریقے ان کے انداز الگ الگ ہیں جو لوگ مسلمانوں کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہیکہ جمعہ کی دوپہر کی نماز (نماز جمعہ) بہت اہم ہوتی ہے۔ مسجدوں کے اطراف و اکناف رہنے والے مسلمان بڑے اہتمام سے اور بڑی تیزی سے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں اور اگر ان علاقوں میں مساجد نہ ہوں تو پھر کچھ مسلمان کسی خالی جگہ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز فرض ہے یہ نماز ایک گھنٹے نوے منٹ میں پوری ہو جاتی ہے۔ گرگاؤں میں بھی یہی ہوتا آیا ہے۔ برسوں سے گڑگاؤں میں 100 سے زائد کھلی جگہوں پر نماز ادا کرتے ہیں جن کی گنتی بعد میں کی گئی۔ مقامی کارخانوں، دفتروں میں کام کرنے والے مسلمان ان مقامات پر نماز ادا کرتے پھر واپس چلے جاتے ہیں لیکن 2018 میں یہ دیکھا گیا کہ اچانک کچھ نوجوان پہنچے اور اُن لوگوں نے مسلمانوں پر حالت نماز میں حملہ کردیا جو مولوی صاحب نماز پڑھا رہے تھے ان کی عینک ٹوٹ گئی۔ ان لوگوں نے یہ کہا کہ مسلمان کھلے مقامات پر نماز ادا نہیں کرسکتے۔ اس پر انتظامیہ اور پولیس پریشان ہوگئی اور حملہ کرنے والے نوجوانوں کو گرفتار کرکے جلد ہی رہا کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نماز پر تنازعہ کھڑا کردیا گیا جبکہ نماز بنا کسی خلل کے ہو رہی تھی لیکن انتظامیہ، پولیس نے تشدد برپا کرنے والوں پر توجہ دینے کی بجائے ان مسلمانوں پر توجہ دی جو تشدد کا نشانہ بنے اور پھر 100 مقامات کو گھٹا کر 37 مقامات پر مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اب پھر مسلمانوں کے نماز کی ادائیگی پر اچانک اس سال مخالفت شروع کرکے احتجاج شروع کردیا گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو 2018 میں بھی مسلمانوں کی جانب سے کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی کی مخالفت کررہے تھے۔ یہ انتہا پسند عناصر مقامی لوگوں سے ملتے انہیں مسلمانوں کے خلاف اکسانے اور نماز ہندووں کے خلاف سازش سے تعبیر کرتے اور کہتے کہ مسلمان ان کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی کی آڑ میں مسجد بنالیں گے اور یہ جگہ آپ کے ہاتھوں سے چلی جائے گی۔ اگر دیکھا جائے تو جن مقامات پر مسلمان نماز ادا کررہے تھے وہ نہ مسلمانوں کی ہے اور نہ ہی ہندوؤں کی، خالی جگہوں پر مسلمان برسوں سے نماز ادا کرتے آرہے ہیں۔ آج تک ان لوگوں نے کسی زمین پر اپنا دعویٰ پیش نہیں کیا۔ اب یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ ہاں 2018 میں ہریانہ کے چیف منسٹر اور ایک وزیر نے یہ ضرور کہا تھا کہ نماز کی آڑ میں زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انتظامیہ نے بھی کبھی تشویش ظاہر نہیں کی لیکن ایک میڈیا چیانل نے اسے لینڈ جہاد قرار دیا ہے اور پھر دائیں بازو کی تنظیموں نے اس سال احتجاجی مہم میں مقامی لوگوں اور عورتوں کو جوڑنا شروع کیا اور یہ کہا جانے لگا کہ اگر آپ یہاں نماز پڑھیں گے تو ہم بھجن اور پوجا کریں گے۔
اس پر ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ گرگاؤں میں جو کچھ ہوا اس سے ہندو دھرم کی اہمیت بڑھی ہے یا گوردھن پوجا کو ہتھیار بنانے والوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے؟ اور کیا ہندو اس بات کو چپ چاپ دیکھتے رہیں گے کہ ان کے تہواروں کا اس طرح مسلمانوں پر حملوں کے لئے استعمال کیا جاتا رہے؟ کیا ہندو یہ سب خاموشی سے دیکھتے رہیں گے؟ رام نومی کا استعمال ایک عرصہ سے کیا جارہا ہے آخر وہ کونسی گندی خواہش ہے جس میں ہم مسجدوں کے سامنے ٹھہرکر مذہبی نعرے لگاتے ہیں۔ ڈھول پیٹتے ہیں؟ آج جو ہندو جلوس نکلتے ہیں ان میں مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض باتیں کی جاتی ہیں۔ گالی گلوج کی جاتی ہے اور کیوں آج ہندو مذہبی جلوس کو مسلم مخالف جلوسوں میں تبدیل کردیا گیا ہے؟ اب تو حال یہ ہوگیا ہیکہ جس کسی چیز میں مسلمانوں کی تھوڑی سے چھاپ بھی دکھائی دیتی ہے تو اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے وہ پچھلے سال کا TANISHQ کا اشتہار ہو یا اس سال کا FAB INDIA کا اشتہار یا پھر اردو سب کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ اب تو پولیس اور انتظامیہ بھی مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرنے والوں کے حق میں کام کرنے لگے ہیں۔ گرگاؤں کے انتظامیہ اور پولیس جس نے مسلمانوں کو خالی جگہ نماز سے روک دیا وہ بھی انتہا پسندوں کے دباؤ میں آکر کیا وہ آئینہ میں خود کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ٹھیک کام کیا ہے؟ کیا انہوں نے انتہا پسند عناصر کے دباؤ میں آکر ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے؟ کیا آنے والے دنوں میں ملک کا سارا قانون اس طرح کی انتہا پسند تنظیموں کے حق میں چلے گا؟