گریجویٹ حلقوں کے انتخابات میںٹی آر ایس قائدین کی بغاوت

   

چیف منسٹر کو رپورٹ پیش۔ ناگرجنا ساگر میں حکمت عملی تبدیل۔ تمام قائدین پر خصوصی نظر

حیدرآباد ۔ ٹی آر ایس قیادت نے حالیہ گریجویٹ حلقوں کے کونسل انتخابات کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ناگرجنا ساگر کے ضمنی انتخابات میں خصوصی انتخابی حکمت عملی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقامی قائدین پر بھروسہ جتاتے ہوئے دوسرے علاقوں کی نمائندگی کرنے والے عوامی منتخب نمائندوں کے ساتھ دوسرے قائدین کی خدمات سے بڑے پیمانے پر استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ناگرجنا ساگر میں کب کیا ہو رہا ہے۔ پل پل کی خبر حاصل کرنے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ پارٹی کے باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہیکہ حالیہ گریجویٹ حلقوں کے انتخابات میں ٹی آر ایس کے اہم عوامی منتخب نمائندوں نے پارٹی امیدواروں کے خلاف کام کیا ہے، جس کی پارٹی قیادت کو رپورٹ وصول ہوئی ہے۔ مخالف پارٹی سرگرمیوں میں شامل رہنے والوں میں ایک وزیر بھی شامل رہنے کا علم ہوا ہے۔ یہ رپورٹ پارٹی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ بالخصوص نلگنڈہ، ورنگل، کھمم حلقہ کے انتخابات میں قسمت آزمانے والے تلنگانہ تحریک کے جہدکار اور ایک آزاد امیدوار کی ٹی آر ایس قائدین کی جانب سے نقد رقم کے ساتھ ان کی زبانی تائید کی گئی بعض آزاد امیدوار کو اپنا دوسرا ترجیحی ووٹ دلانے کی بھی ترغیب دینے کا رپورٹ کے ذریعہ انکشاف ہوا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کے قریبی رہنے والے ٹی آر ایس امیدوار پی راجیشور ریڈی کی شکست پر چیف منسٹر کا وقار متاثر ہونے کا اندازہ ہونے کے باوجود پارٹی قائدین نے پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کرنے کا پارٹی قیادت نے سخت نوٹ لیا ہے۔ پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں میں ایک وزیر کے ساتھ سابق ارکان اسمبلی اور پارٹی قائدین نے کہیں تلنگانہ تحریک کے جذبہ اور کہیں ذات پات کی سیاست سے متاثر ہوکر آزاد امیدوار کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ دوسرے حلقہ حیدرآباد، رنگاریڈی، محبوب نگر میں بھی پارٹی کے بعض قائدین نے پارٹی امیدوار کی تائید نہیں کی، کی بھی تو یہ اپنے نام بالخصوص کمیونسٹ نظریات رکھنے والے قائدین جو ٹی آر ایس میں شامل ہوئے تھے انہوں نے آزاد امیدوار پروفیسر ناگیشور راؤ کی تائید کی یہی نہیں دوباک ضمنی انتخابات اور جی ایچ ایم سی انتخابات میں بھی پارٹی قائدین کے پارٹی امیدواروں کو عدم تائید کی رپورٹ پارٹی قیادت کے پاس پہنچ گئی ہے، جس کے بعد چیف منسٹر نے ناگرجنا ساگر ضمنی انتخابات کے لے پارٹی کی حکمت عملی تبدیل کردی ہے۔ خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کے ورکنگ پریسڈینٹ کے ٹی آر کو مکمل اختیارات دیتے ہوئے انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔