گریش کرناڈ بے باک جہدکار، مصنف، ڈرامہ نگار، اداکار، دانشور…

   

عرفان جابری
وہ کثیر ثقافتی سماج اور آزادیٔ اظہار خیال کے حامی تھے۔ وہ مذہبی کٹرپسندی اور ہندوتوا کے نقاد تھے۔ انھوں نے 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کی کھل کر مذمت کی تھی اور پھر ہبلی میں عیدگاہ میدان کے تعلق سے تنازع پیدا کرنے کی کوششوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ انھوں نے آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کی کئی موقعوں پر مخالفت کی۔ انھوں نے 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کیلئے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنائے جانے کی بھی مخالفت کی تھی۔ یہ چند باتیں گریش کرناڈ (1938-2019) سے متعلق ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی بے باکی کا اظہار کوئی مخصوص برادری کے حق میں ہی کیا کرتے تھے۔ انھوں نے جبر، ناانصافی اور مخصوص کلچر کو سب پر تھوپنے کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی کیونکہ وہ تکثیری سماج کے حامی اور سکیولر ذہنیت کے حامل تھے۔ مذہب، ذات پات میں بھیدبھاؤ کی بنیاد پر لوگوں سے مراسم نہیں رکھتے تھے۔ خود اُن کی نجی زندگی کی مثال لیجئے۔ وہ بنگلور میں رہتے تھے۔ مدراس میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کیلئے ملازمت کے دوران جب وہ انگلینڈ سے واپس ہوئے تو اپنی ہونے والی شریک حیات سرسوتی گنپتی سے اُن کی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی۔ دونوں نے آپس میں شادی کا فیصلہ کیا لیکن اس شادی کو دس سال بعد ہی باقاعدہ کیا جاسکا، جب گریش 42 سال کے ہوچکے تھے۔ دراصل سرسوتی کی ماں نرگس موگاسیتھ ’پارسی‘ تھیں اور والد کونڈنڈیرا گنپتی ’کوڈاوا ‘ کمیونٹی سے تھے۔ بہرحال گریش اور سرسوتی کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔
مصنف، ماہرلسانیات، ڈرامہ نگار، اداکار، دانشور، جہدکار کی حیثیت سے جب 81 سالہ گریش رگھوناتھ کرناڈ نے اپنی طویل علامت کے سبب کئی اعضائے رئیسہ ناکام ہوجانے کے سبب اِس دنیا کو چھوڑا تو زندگی کے کئی شعبوں میںسے تعلق رکھنے والے لوگ مغموم ہوگئے۔ وہ گوناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک تھے۔ اُن سے تعلق رکھنے والا ہر عمر کا فرد ماضی کی یادوں میں کھوگیا کیونکہ اُسے گریش کرناڈ سے سیکھنے یا اُن کے ساتھ کام کرنے کا خوشگوار تجربہ ہنوز یاد آتا ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بنگلورو میں 2017ء میں سینئر جرنلسٹ و رائٹر گوری لنکیش کو نکسلائٹس سے اُن کے مبینہ روابط پر بعض عناصر نے قتل کردیا۔ یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ گوری لنکیش کے ساتھ گریش کرناڈ کے اچھے مراسم رہے تھے۔ دونوں نے جہدکار ہونے کے ناطے کئی بار سماجی مسائل پر احتجاج کیا تھا اور گرفتار بھی ہوئے۔ چنانچہ گوری کی بہن کویتا لنکیش نے جب ستمبر 2018ء میں پہلی برسی کی تقریب کیلئے گریش کرناڈ کو مدعو کیا، تب وہ علیل تھے۔ پھر بھی انھوں نے وعدہ کیا کہ پانچ منٹ ہی سہی وہ برسی کی تقریب میں ضرور شرکت کریں گے لیکن شاید تقریر نہ کر پائیں گے۔ وہ واقعی چند منٹ کیلئے تقریب میں شریک ہوئے لیکن تھوڑی ہی دیر کی شرکت میں وہ سب سے زیادہ شہ سرخی میں آگئے کیونکہ وہ اپنے گلے میں ایک بورڈ لٹکائے ہوئے تھے جس پر لکھا تھا ME TOO URBAN NAXAL۔ گریش کرناڈ کا نام بھی ہٹ لسٹ میں تھا، جس میں کئی سکیولر سوچ و فکر کے حامل اشخاص تھے، لیکن وہ اپنی گرتی صحت کے باوجود کبھی کسی سلگتے موضوع پر خاموش نہیں رہے۔ وہ بے باک آواز کی مثال تھے اور شاید اپنی نسل کے لوگوں کی بھی مثال تھے۔ دلچسپ بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی گریش کرناڈ کے دیہانت پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ علاوہ ازیں اداکارہ شبانہ اعظمی، رنگا شنکرا کی اروندھتی ناگ، تھیٹر اور ہمہ رنگ شخصیت کی مداح ہیما آننت رامن، 68 سالہ مصنفہ سدھا مورتی نے بھی گریش کرناڈ بے پناہ صلاحیتوں اور کئی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ادبی دنیا ، فلمی میدان اور دیگر شعبوں کی کئی شخصیتوں نے بھی اپنی محبوب شخصیت سے محرومی پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
موجودہ مہاراشٹرا کے متھیرن کی پیدائش والے گریش کرناڈ کی ماں کرشنا بائی ایک بچہ کے ساتھ نوجوان بیوہ تھیں، اور نرس بننے کی ٹریننگ کے دوران اُن کی ملاقات ڈاکٹر رگھوناتھ کرناڈ سے ہوئی جو بمبے میڈیکل سرویسس میں ڈاکٹر تھے۔ پانچ سال تک وہ شادی نہیں کرپائے کیونکہ اُس وقت بیوہ کی دوبارہ شادی کے خلاف بدظنی کا مزاج تھا۔ آخرکار اُن کی شادی کو آریہ سماج کی مداخلت پر قبول کیا گیا۔ اس کے بعد پیدا ہوئے چار بچوں میں گریش تیسرے تھے۔ بہرحال انھیں سماج میں غلط روش کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ شاید ورثہ میں ملا۔
گریش کرناڈ کی ابتدائی تعلیم مراٹھی میں ہوئی۔ بعد میں جب وہ چودہ سال کے تھے، اُن کی فیملی کرناٹک کے دھارواڑ کو منتقل ہوئی ۔ اس طرح کنڑ اُن کی اہم زبان بن گئی۔ اس کے بعد مختلف زبانیں سیکھنے اور ان میں دسترس حاصل کرنے کا سلسلہ رکا نہیں۔ چنانچہ انھیں ماہر لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دھارواڑ (کرناٹک یونیورسٹی) کے کرناٹک آرٹس کالج سے 1958ء میں بی اے (ریاضی اور شماریات) کیا۔ گرائجویشن کے بعد وہ انگلینڈ گئے اور آکسفورڈ کے میگڈالن میں روڈز اسکالر (1960-63) کی حیثیت سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم حاصل کی اور وہاں سے فلسفہ، سیاسی علوم اور معاشیات میں ایم اے کی ڈگری پائی۔ گریش کرناڈ کو 1962-63ء میں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، چینائی کیلئے سات سال (1963-70) ملازمت کرنے کے بعد وہ تصنیف پر مکمل وقت توجہ دینے کیلئے مستعفی ہوگئے۔ مدراس (موجودہ چینائی) میں رہتے ہوئے وہ مقامی امیچور تھیٹر گروپ ’دی مدراس پلیئرز‘ کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے۔ 1987-88ء کے دوران وہ یونیورسٹی آف شکاگو میں وزیٹنگ پروفیسر اور فلبرائٹ پلے رائٹ اِن ریزیڈنس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران کنڑ کے گریش کرناڈ کے انگریزی ترجمہ پر مبنی ’شکاگو ناگامندلا‘ کا ورلڈ پریمیئر ہوا تھا۔ وہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ڈائرکٹر (1974-75) اور سنگیت ناٹک اکاڈمی کے چیئرمین (1988-93) رہے۔ وہ ڈائرکٹر نہرو سنٹر اور منسٹر آف کلچر، انڈین ہائی کمیشن، لندن (2000-03) بھی رہے۔
گریش کرناڈ معروف ڈرامہ نگار رہے۔ کنڑ میں لکھے گئے اُن کے ڈراموں کا انگریزی اور بعض ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ کنٹر اُن کی پسندیدہ زبان تھی (اور دھارواڑ اُن کا پسندیدہ مقام تھا)۔ جب گریش کرناڈ نے ڈرامے لکھنے شروع کئے، تب کنڑ ادب پر مغربی لٹریچر میں نشاۃ ثانیہ کا بہت زیادہ اثر تھا۔ 1961ء میں جب وہ 23 سال کے تھے، کنگ ییاتی کی کہانی پر مبنی اُن کا ڈرامہ ’ییاتی‘ شائع ہوا۔ اسے فوری کامیابی ملی اور اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے کئی دیگر ہندوستانی زبانوں میں پیش کیا گیا۔
گریش کرناڈ نے تاریخی اور دیومالائی ذرائع سے مواد اخذ کرتے ہوئے نیا انداز اپنایا تاکہ عصری موضوعات اور جدید دور کے انسان کے بحران سے ایسے کرداروں کے ذریعے نمٹا جاسکے جو نفسیاتی اور فلسفی کشمکش میں پھنسے ہیں۔ اُن کا اگلا ڈرامہ تغلق (1964) رہا جو 14 ویں صدی کے سلطان دہلی محمد بن تغلق پر مبنی ہے۔ اسی طرح کنڑ میں زیادہ تر ڈرامے لکھے اور انگریزی میں بھی تحریر کئے۔
ہمہ رنگ گریش کرناڈ نے فلموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے درجنوں میں فلموں میں اداکاری کی جن میں زیادہ تر کنڑ فلمیں ہیں۔ تاہم، انھوں نے ہندی، تلگو، ٹامل اور ملیالم فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنی اداکاری اور اسکرین رائٹنگ کا کیرئیر بہ یک وقت کنڑ فلم ’سمسکارا‘ (1970) سے شروع کیا۔ یہ یو آر اننت مورتی کی ناول پر مبنی فلم ہے جس کے ہدایت کار پٹابھی رام ریڈی ہیں۔ اس فلم کو کنڑ سنیما میں پریسیڈنٹس گولڈن لوٹس ایوارڈ حاصل ہوا۔ یوں سمجھئے کہ گریش کرناڈ نے اس کے بعد پردۂ سیمیں سے جڑی صلاحیتوں کے اظہار میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے ٹیلی ویژن پر ٹی وی سیریز ’مالگوڈی ڈیز‘ (1986-87) میں سوامی کے باپ کا رول ادا کیا۔ یہ آر کے نارائن کی کتب پر مبنی ٹی وی سیریز ہے۔ انھوں نے دہا 1990ء کے اوائل میں دوردرشن پر سائنس میگزین ’ٹرننگ پوائنٹ‘ کی میزبانی بھی کی۔
تلگو سنیما کے ساتھ اُن کی وابستگی مختصر رہی لیکن اُس کا معیار بلند اور کام دلچسپ رہا۔ انھوں نے طاقتور کیریکٹر ایکٹر رول ادا کئے جن میں ناگرجنا کی فلموں میں منفی کرداروں کی جھلک بھی رہی۔ انھوں نے منا بھائی ایم بی بی ایس کے تلگو ری میک میں سنیل دت کا رول نبھایا۔ تاہم، اُن کا سب سے زیادہ تعریف و ستائش حاصل کرنے والا رول 1983ء کی جدھیالا کی ہدایت میں بنی فلم ’آنندا بھیروی‘ ہے جس میں کنڑ اور تلگو دونوں میں دو لسانی شاٹ لیا گیا۔گریش کرناڈ نے کچی پوڈی ڈانس گرو کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے کلاسیکل ڈانس کی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا۔
گریش کرناڈ نے ہدایت کاری میں بھی قسمت آزمائی کی۔ اُن کی پہلی کوشش ’ومشا ورکشا‘ (1971) رہی جو ایس ایل بھائرپا کی کنڑ ناول پر مبنی ہے۔ اس فلم نے انھیں نیشنل فلم ایوارڈ فار بسٹ ڈائریکشن ، بی وی کرنتھ کے ساتھ جتوایا جو فلم کے شریک ہدایت کار رہے۔ بعد میں گریش کرناڈ نے کنڑ اور ہندی میں کئی فلموں کی ہدایت دی جن میں گڈھولی (1977) اور اُتسو (1984) شامل ہیں۔ انھوں نے کئی ڈاکومینٹریز بھی بنائے جیسے کنڑ شاعر ڈی آر بیندرے (1972) ، صوفی مت پر ’دی لیمپ اِن دی نچ (انگریزی، 1989ء) اور ’بھکتی موومنٹ‘ وغیرہ۔ اُن کی کئی فلموں اور ڈاکومینٹریز (دستاویزی) نے انھیں متعدد نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز جتوائے ہیں۔
اُن کی مشہور کنڑ فلموں میں ’تبالیوو نیناڈے مگانے‘ اونڈانونڈو کلاڈلی، کانورو ہیگادیتی (1999ء) شامل ہیں۔ اُن کی ہندی فلموں میں نشانت (1975)، منتھن (1976)، پکار (2000) شامل ہیں۔ انھوں نے ناگیش کوکونور کی کئی فلموں میں اداکاری کی، جس کی شروعات ’اقبال‘ (2005) سے ہوئی جہاں گریش کے سخت کرکٹ کوچ کے رول پر انھیں ناقدین سے تعریف و ستائش حاصل ہوئی۔ انھوں نے یش راج فلمز کی پیشکش ’ایک تھا ٹائیگر‘ (2012) اور اس کے سیکویل ’ٹائیگر زندہ ہے‘ (2017) میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ یہ بات شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ گریش کرناڈ نے اے پی جے عبدالکلام سابق صدرجمہوریہ ہند کی آواز فراہم کی، جسے چرخا آڈیوبکس کی جانب سے عبدالکلام کی خودنوشت کی آڈیوبک میں استعمال کیا گیا۔
گریش کرناڈ کو بے شمار ایوارڈز حاصل ہوئے۔ انھیں 1998ء کا گنان پیٹھ ایوارڈ کا حاصل ہوا تھا جو ہندوستان میں عطا کیا جانے والا اعظم ترین ادبی اعزاز ہے۔ انھیں پدم شری اور پدم بھوشن جیسے اعلیٰ سیویلین اعزازات حکومت ہند (یو پی اے حکومت کا دَور) عطا کئے گئے۔ انھیں چار فلم فیئر ایوارڈز حاصل ہوئے، جن میں سے تین فلم فیئر ایوارڈ فار بسٹ ڈائریکٹر (کنڑ) اور چوتھا فلم فیئر بسٹ اسکرین پلے ایوارڈ شامل ہیں۔