گریٹا، مینا، ریہانا کے بیانات پر ردعمل غیر ضروری

   

برکھا دت
کیا صداقت تصور سے زیادہ ڈرامائی ہوسکتی ہے کیا ہم ایسی امید رکھ سکتے ہیں؟ جاریہ ہفتہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے بارے میں ٹوئٹر پیغامات سے ہمارے ملک کی حکومت دہل کر رہ گئی، حالانکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حکومت ہے۔ کیا ہماری عزت نفس اتنی کم قیمت ہے اور کیا ہمارے کندھے اتنے تنگ ہیں کہ ہم ہمارے زرعی قوانین کے بارے میں ایسے بیہودہ ٹوئٹر پیغامات کو جھٹک نہیں سکتے۔ ریہانا نے ہمارے نئے زرعی قوانین کے بارے میں بیان دیتے ہوئے ایک ایسے مسئلہ پر دخل اندازی کی ہے جس کو وہ قطعی سمجھ نہیں سکتی کیونکہ وہ ایک مغربی دنیا کی مشہور پاپ سنگر ہے۔ ہماری حکومت کو اس کے ٹوئٹر پیغامات پر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ریہانا کی ہندوستان کے کسانوں کو تائید کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
گریٹا تھنبرگ کے اسلحہ خانہ میں ایسا کوئی ہتھیار موجود نہیں ہے، صرف روایتی اور سطحی بیانات اس پچیدہ مسئلہ پر جاری کئے جارہے ہیں۔ نائب صدر امریکہ کملا ہیریس کی بھتیجی مینا ہیریس کے بیانات بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ اس مسئلہ پر فراخدل اہم شخصیات کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ ایسی صورت میں چاہے آپ کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کی تائید کریں یا مخالفت اور کونسے فریق کی آپ تائید کرتے ہیں آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یوم جمہوریہ کے تشدد پر پولیس کی کارروائی کیا تھی یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

حکومت کو چاہئے کہ دوسری حکومتوں کے بیانات پر ردعمل ظاہر کرے۔ ریہانا، گریٹا یا مینا کے ٹوئٹر پیغامات پر ردعمل ظاہر کرنا حکومت کے لئے مناسب نہیں ہے۔ چاہے ٹوئٹر بیان دینے والی شخصیت عالمی سطح پر اہمیت رکھتی ہو یا نارکھتی ہو۔ حنا ایلیس پیٹرسن جنوبی ایشیا کے لئے گارجین کی نامہ نگار نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’اگر حکومت جواب نہیں دیتی تو ممکن تھا کہ ریہانا کا ٹوئٹر پیغام صرف ایک پیغام کی حیثیت رکھتا‘‘ لیکن حکومت کے ردعمل کی بنا پر اس پیغام کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ ہندوستان کے اہم کرکٹ کھلاڑیوں اور بالی ووڈ اداکاروں نے بھی اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے کے لئے حکومت ہند کی تائید میں ردعمل ظاہر کئے اور جلتی پر تیل چھڑکا۔
حکومت ہند کی جانب سے ہمارے داخلی معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر ردعمل ظاہر کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان بیانات کو اہمیت حاصل ہوگئی ورنہ مسئلہ سے واقفیت کے بغیر بطور فیشن دیئے ہوئے بیانات کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ جیسے کہ امریکہ میں جارج فلائیڈ کا قتل تھا یا پھر سیاہ فام افراد کی ہلاکتوں کا مسئلہ امریکہ کا داخلی مسئلہ تھا اس لئے حکومت نے عالم گیر سطح پر اہمیت رکھنے والے افراد کے ٹوئٹر بیانات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بھی زرعی قوانین کے بارے میں ردعمل ظاہر کیا۔ ہمیں چاہئے تھا کہ ان تمام غیر ملکی بیانات پر ردعمل ظاہر نہ کرتے اور ان سے صاف طور پر کہہ دیتے کہ وہ صرف اپنے معاملات سے نمٹیں۔ ہمارے داخلی معاملات میں داخل اندازی نہ کریں لیکن ہمارے داخلی معاملات میں غیر ملکیوں کی دراندازی اس لئے جاری رہی کیونکہ ہمارے سرکاری ردعمل نے ان ٹوئٹر پیغامات کو اہمیت دیدی تھی۔
مینا ہیریس، گریٹا تھن برگ اور ریہانا کے ہمارے زرعی قوانین کے بارے میں بیانات کے بعد ہمارے ٹی وی چیانلس نے بھی اس ذہنیت کو خطرناک حد تک پہنچا دیا اور کردار کشی کرنے کی مہمیں چلائیں۔ پولیس نے ایک مقدمہ درج کرلیا جیسے کہ زرعی احتجاج ایک حقیقی مسئلہ تھا حالانکہ یہ ملک کے دیہی عوام کا ایک مسئلہ ہے اور اس سے حکومت کو اسی سطح پر نمٹنا چاہئے۔
زرعی قوانین کے خلاف احتجاج پر ہم نے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اس احتجاج کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ خواتین کے خلاف بھی جو احتجاج میں حصہ لے رہی تھیں پولیس کارروائی پر عوام برہم ہوگئے۔ مینا ہیریس نے ایک جذباتی ٹوئٹر پیغام دیا تھا لیکن انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ کیا اس طرح کا ردعمل ان کے بیان کو اخباری اطلاعات میں شامل نہیں کردیتا اور ان کے بیان کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔

بہرحال اگر سمنٹ کی رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں، انٹرنیٹ تک رسائی بند نہ کی جاتی، احتجاج کے مقام کو آہنی سلاخوں سے الگ تھلگ نہ کیا جاتا اور قومی شاہراہوں پر کیلیں نصب نہ کئے جاتے تو کسانوں کی اکثریت کا یہ احتجاج بالکل پرامن برقرار رہتا اور عالمی توجہ کا مرکز نہ بننے پاتا صرف ہماری اپنی حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہے تھی اور مسئلہ کی یکسوئی کرنی چاہئے تھی لیکن ہم نے صرف چند ٹوئٹر پیغمات پر توجہ دے کر ان کی اہمیت میں اضافہ کردیا۔ ماہر معاشیات شروتی راجگوپالن نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ انسانی حقوق کے کارکن کاشتکاروں کے احتجاج کی تائید کررہے ہیں۔ ہندوستانی پولیس کو اس پر برہمی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور مخالف فریق کو اہمیت نہیں دینی چاہئے۔ جوابی احتجاج کے دوران تقریباً 400 پولیس والے زخمی ہوگئے۔
ہمیں مسئلہ سے ناواقف مغربی دنیا کے ردعمل پر توجہ دے کر سازش کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور انہیں جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ورنہ انہیں غیر ضروری طور پر اہمیت حاصل ہوسکتی ہے۔