گلبرگہ یونیورسٹی چار دہائیوں سے بے بسی کا شکار

   

کلیان کرناٹک ہورٹا سمیتی کا اجلاس، پروفیسر شیوراج پاٹل کا خطاب

گلبرگہ 20دسمبر : (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) گلبرگہ یونیورسٹی گزشتہ چار دہائیوں سے انتہائی لاچاری، معذوری اور بے بسی کا شکار ہے۔ ایسے میں اس خستہ حال یونیورسٹی کو مزید دو یونیورسٹیوں میں منقسم کرنا ایک نہ شد دو شد کے مترادف ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شیوراج پاٹل نے گلبرگہ یونیورسٹی کے رادھا کرشنا آڈیٹوریم میں یونیورسٹی اور کلیان کرناٹک ہوراٹا سمیتی کے باہمی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ کسی بھی یونیورسٹی کیفعال کار کردگی کیلئے تین اہم ستون درکار ہیں۔ قابل فیکلٹی، مستحکم تحقیقی مرکز اور مستعد براڈکاسٹنگ باڈی ہو تو یونیورسٹی زیادہ موثر انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ تاہم گلبرگہ یونیورسٹی ان تینوں اعضاء سے معذور ہے یہاں نہ کوئی قابل فیکلٹی ہے نہ ریسرچ ونگ نہ براڈکاسٹنگ آرگن تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی مستقبل بھی ہو. اس بات سے اربابِ جامعہ بھی بہ خوبی واقف ہیں کہ کئی شعبوں میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی تشویشناک حد تک قِلَّت ہے اور اسی طرح پرسارنگا بجٹ نہ ہونے کی وجہ اشاعتی سرگرمیوں سے مجبور ہے ۔ایسے میں یونیورسٹی کی ترقی کا مسئلہ ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔یہاں کے شعبے ایک اجارہ دار اسکول کی طرح نظر آتے ہیں۔ایم ناگ راج سے دیانند اگسر تک یونیورسٹی مسلسل تنزلپذیر ہے اور تسلی بخش تدریس، تحقیق اور انتظامیہ و اشاعتی سرگرمیوں سے محروم ہے. انہوں نے انتہائی درد ناک لہجہ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے قدآور رہنماؤں بالخصوص آنجہانی ڈاکٹر این دھرم سنگھ اور ایم ملیکارجن کھرگے سمیت ہمارے علاقہ کے سبھی اراکینِ پارلیمان، راجیہ سبھا، اسمبلی اور قانون ساز اسمبلی کے علاوہ وزرائے گلبرگہ نے بھی کبھی یونیورسٹی کی شکایتوںپر کان نہیں دھرا جس کے نتیجے میں یہ یونیورسٹی دم توڑنے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔واضح رہے کہ عزت مآ ب گورنرنے حال ہی میں کلیان کرناٹک ریجنل ڈیولپمنٹ بورڈ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی یونیورسٹیوں کو 10 فیصد گرانٹ فراہم کرنے کے لئے فنڈز جاری کریں یہ یقیناً اچھی پیش رفت مگر یہ علاقے کی معاشی و دانشمندانہ دیوالیہ پن کو بھی ظاہر کرتا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔