گمنام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی

   

نوجوان نسل کو ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ) کا تحفہ

ہندوستان کی آزادی کیلئے بلا لحاظ مذہب و ملت تمام ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا، قربانیاں بھی دی ہیں لیکن جس شدت کے ساتھ مسلمانوں بالخصوص ہمارے علماء نے فرنگیوں کو للکارا ان پر ہیبت طاری کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، کسی اور نے نہیں کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے برصغیر میں مجاہدین آزادی کو فراموش کردیا گیا ۔ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا حال یہ ہے کہ وہ انگریزوں کے دلالوں ، تلوے چاٹووں اور مخبروںکو عزت بخش رہے ہیں۔ ان کے مجسمے اور پورٹریٹ نصب کر رہے ہیں جبکہ انگریزوں پر اپنے جذبہ حریت کے ذریعہ دہشت طاری کرنے والے مجاہدین کو تاریخ کے مرد خانوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ قوم مسلم مجاہدین آزادی کے بارے میں کچھ جان سکے۔ ایسے ہی مجاہدین آزادی میں شیر علی خاں آفریدی جیسے مجاہد آزادی بھی شامل ہیں، جسے تاریخ شیر علی نورانی کے نام سے بھی جانتی ہے۔ شیر علی خاں آفریدی کے بارے میں ہما ری نئی نسل کو یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے وائسرائے لارڈ مٹیو کا قتل کرتے ہوئے آزادی کے متوالوں میں ایک نیا جوش و ولولہ اور انگریزوں میں خوف پیدا کردیا تھا۔ اس جرم کی سزا میں انگریز حکومت نے انہیں (شیر علی خان افریدی) کو تختہ دار پر لٹکادیا ۔ جس وقت اس مجاہد کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا ، اس سے قبل ہی انہوں نے جو الفاظ ادا کئے وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں درج کئے جانے کے قابل ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا ’’مجھے جلد از جلد پھانسی دے دو کیونکہ میری موت سے ایک ایسا آتش فشاں پھوٹے گا جو برطانوی سامراج کو جلاکر راکھ کردے گا۔ میرے خون کا ایک ایک قطرہ مجھ جیسے کئی شیر علی خاں جنم دے گا‘‘۔ شیر علی خاں آفریدی نے تختہ دار پر اپنے مذکورہ تاریخی الفاظ کے ذریعہ انگریز سامراج کو یہ بتایا کہ ہم آزادی کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ واضح رہے کہ انگریزوں کو خاص طورپر مسلم مجاہدین آزادی سے بہت خوف رہا کرتا تھا ، وہ سوچتے تھے کہ مسلم مجاہدین آزادی موت کا پیچھا کرتے ہیں اور زندگی ان کے تعاقب میں رہتی ہے ۔ اگرچہ شیر علی خاں کی شہادت کا واقعہ پیش آئے 150 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ انہیں گوشۂ گمنامی میں ڈھکیلنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود انہیں منظر عام پر لانے والوں کی کوشش رائیگاں نہیں گئیں۔ غیور مصنفین ، ادیبوں و صحافیوں نے انہیں اپنی تحریروں میں زندہ رکھا ہے ۔ ا یسے ہی مصنفین میں ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ) بھی ہیں انہوں نے 128 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جسے ’’گمنام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی‘‘ کا نام دیا ۔ ریاست تلنگانہ کے وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی کے ہاتھوں اس کی رسم اجرائی انجام پائی ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ) نے شیر علی خاں آفریدی ایک تعارف ، انڈمان و نکوبار کا جغرافیہ ، انڈمان و نکوبار کی مختصر تاریخ ، نوآبادیاتی بستی ( اوپن جیل) کا قیام ، جزائر کے شب و روز مقید مجاہدین کی نظر میں ، گورنر جنرل لارڈ مٹیو کی شخصیت، شیر علی خاں آفریدی کا کارنامہ ، شیر علی خاں آفریدی وطن میں غیراور گلہائے عقیدت کے زیر عنوان معلوماتی مصامین شامل کئے ہیں جس سے ہماری نئی نسل کو اس غیر معمولی مجاہد آزادی کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ) نے دفتر سیاست پہنچ کر نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں بھی اپنی کتاب پیش کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گمنام مجاہدین آزادی سے نئی نسل کو واقف کروانا ہی ان کا مقصد ہے۔