گنتی ، موت ، غربت اور محاصل

   

پی چدمبرم

عام زندگی میں ہم وقت کی گنتی رکھتے ہیں یا اس کا شمار کرتے ہیں، ہم پیسے گنتے ہیں، ہم کھیل، رنز اور گولس گنتے ہیں، ہم کامیابیوں اور ناکامیوں کا بھی شمار کرتے ہیں۔ ہم ووٹ اور نشستیں گنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
بالکل درست طریقہ سے گننے یا شمار کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں سوائے ایسا لگتا ہے کہ مردوں کی گنتی میں ہمارے ملک میں بھیانک غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے اور وہ بھی کورونا وائرس وباء کے دوران مثال کے طور پر کورونا وائرس کی عالمی وباء کے نتیجہ میں ہر طرف موت ہی موت چھائی رہی۔ کورونا وائرس وباء کے دوران کتنے لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے کیونکہ وہ کورونا سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ تعداد صرف اسی صورت میں معلوم ہوسکتی ہے جبکہ کورونا وائرس سے متاثر ہوکر بیمار ہونے والے ہر شخص کا سراغ لگایا گیا ہو، ان کے معائنے اور علاج و معالجہ کیا گیا ہو اور وہ روبہ صحت ہوئے ہوں یا پھر وائرس کی زد میں آکر اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہوں یا نعشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہو لیکن یہ ان ممالک میں ممکن تھا جن کی آبادی نسبتاً کم ہے یا جہاں شعبہ صحت کی جدید سہولیات بہ آسانی دستیاب ہوں۔ سال 2020ء میں ہندوستان کو آبادی اور صحت کی جدید سہولتوں دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ ہمارا ملک کوئی چھوٹی آبادی والا ملک نہیں ہے اور جہاں تک شعبہ صحت میں عصری سہولتوں کا سوال ہے، اس بارے میں سب جانتے ہیں کہ کیا حال ہے۔
کتنی اموات
کورونا وائرس کے نتیجہ میں سارے ملک میں اموات ہوئیں، یقینی طور پر ان تمام کے تمام کی تشخیص یا علاج نہیں کیا گیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام کی اموات دواخانوں میں نہیں ہوئی ہم سب نے دیکھا کہ نعشیں ندیوں میں پھینکی گئیں یا پھر ندیوں کے کنارے مٹی اور ریت کے نیچے دبا دی گئیں۔ سب سے اہم اور قابل فکر بات یہ تھی کہ وائرس کا شکار ہوکر مرنے والوں کی کوئی گنتی نہیں تھی، ان کا کوئی شمار نہیں کیا گیا تھا اور سب نے اس حقیقت کو قبول بھی کیا، سوائے ہماری حکومت کے جو یہ کہتی رہی کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد (22 اپریل 2022ء کی صبح تک) 5,22,065 تھی لیکن مطالعہ پر مطالعہ نے وائرس سے مرنے والوں کے بارے میں حکومت کے اعداد و شمار کو جھٹلا دیا۔ سب سے پہلا انکشاف مودی کی ریاست گجرات میں ہوا۔ سرکاری حکام کی جانب سے جاری کردہ صداقت نامہ اموات کی تعداد کو اکٹھا کرکے ایک اخبار نے یہ ثابت کردیا کہ ماقبل وباء برسوں کے دوران مرنے والوں کی بہ نسبت وباء کے منظر عام پر آنے کے بعد کے برسوں میں مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہی اور دونوں میں جو فرق ہے، وہ صرف اور صرف کورونا وائرس کے باعث ہی پیدا ہوا ہے یعنی کثیر تعداد میں لوگ کورونا وائرس سے فوت ہوئے ہیں اور اموات میں جو فرق ہے، وبائی امراض سے متعلق اموات کی سرکاری تعداد سے بہت زیادہ تھا اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب یہی مشق دوسری ریاستوں کی بلدیات میں کی گئی خاص طور پر ڈیتھ سرٹیفکیٹس اور آخری رسومات کی تعداد کا موازانہ کرتے ہوئے تب یہ بار بار ثابت ہوا کہ حکومت کورونا سے مرنے والوں کی جو تعداد بتا رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ فوت ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت نے کورونا سے مرنے والوں کی حقیقی تعداد چھپائی ہے یا چھپانے کی کوشش کی ہے۔
سائنس اور عقل سلیم
اس مرحلہ پر سائنس نے قدم رکھا سائنس میگزین میں جنوری 2022ء کو ایک اسٹڈی شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں کورونا وائرس کے سبب 30,00,000 اموات ہوئیں۔ ایک اور اسٹڈی کی اشاعت طبی و سائنسی جریدہ ’’لانسیٹ‘‘ میں ماہ اپریل میں عمل میں آئی۔ اس میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 40,00,000 رہی۔ ایک تیسری اور سال بھر تک کی گئی اس اسٹڈی میں جسے عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے اسپانسر کیا تھا جو ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 40,00,000 بتائی گئی ہے۔ (عالمی سطح پر مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 90,00,000 کیا گیا ہے)
اگر کورونا کی عالمی وباء سے جڑی اموات کی تعداد 30,00,000 اور 40,00,000 کے درمیان رہتی سے تب بھی حکومت ہند پر کئی محاذوں پر بری طرح ناکام ہونے کے الزامات عائد کئے جاسکتے ہیں۔ مرکز میں 6 برس اور مختلف ریاستوں میں کئی برسوں سے اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی حکومت صحت کے شعبہ میں مناسب طور پر سرمایہ مشغول کرنے یا اس پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے میں بری طرح ناکام رہیں۔ بار بار پیشگی انتباہ کے باوجود حکومت صحت عامہ کے شعبہ میں تباہی و بربادی کا سامنا کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار نہیں تھی بلکہ اس نے لوگوں کی نقل و حرکت (سفر) پر پابندی، لاک ڈاؤن کے نفاذ، نگہداشت صحت کی عارضی سہولتوں کی تخلیق، ٹیکسوں کی فراہمی کیلئے آرڈرس دینے وغیرہ کے جو بھی فیصلے کئے، وہ بہت تاخیر سے کئے گئے۔ بہرحال اس تمام معاملے میں جو خطرناک بات رہی، وہ حکومت کی جانب سے کورونا اموات کی حقیقی تعداد تسلیم نہ کرنا ہے، حکومت یہ بات ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ملک میں کورونا سے مرنے والوں سے متعلق جو سرکاری اعداد و شمار ہیں، وہ بالکل غلط ہیں جبکہ اس سے 6-8 گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ حکومت مختلف جائزوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے ہماری مرکزی وزارت صحت نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اپنے جائزہ میں اپنائے گئے طریقہ کار یا میتھاڈولوجی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ان اسٹڈیز میں دنیا بھر کے ماہرین شامل تھے یا ان کی نگرانی میں ان جائزوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔
میتھاڈولوجی کو آپ ایک طرف رکھ دیجئے۔ عام عقل کی بات کرتے ہیں۔ سال 2019ء میں ہمارے ملک میں 6,64,369 دیہات تھے۔ ان میں سے یہ سمجھ لیا جائے کہ 20% مواضعات دور دراز مقامات پر واقع ہیں۔ اس لئے یہ مواضعات وباء سے متاثر نہیں ہوئے (جو غلط تصور ہے) اگر ان مواضعات میں 5,00,000 مواضعات کو بھی لیں اور ہر گاؤں میں وباء سے اوسطاً دو افراد فوت ہوئے ہوں تو مرنے والوں کی تعداد 10,00,000 ہوگی۔ اس تعداد میں ان اموات کی بھی تعداد شامل کریں جو ٹاؤنس اور شہروں میں (شہر آبادی 35% ہے) ہوئیں جس کے بعد جملہ اموات کی تعداد 15,00,000 ہوجائے گی۔
غربت اور محاصل
ایک اور گنتی نے ایک نیا تنازعہ چھیڑ دیا ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت اس گنتی سے بہت خوشی ہے۔ عالمی بینک کی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں پائی جانے والی شدید غربت جو 2011ء میں 22.5% تھی۔ اس میں 12.3% کی کمی آئی ہے اور 2019ء میں وہ 10.2% ہوگئی ہے۔ دیہی علاقوں میں اچھے نتائج دیکھے گئے ہیں۔ (وہاں شدید غربت میں 14.7% کی کمی آئی) میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ غربت میں کمی آئی لیکن اب بھی کئی خامیاں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن جائزوں کی ہم بات کررہے ہیں وہ 2019ء میں روک دیئے گئے۔ کورونا وباء نے جو تباہی مچائی، اس پر غور نہیں کیا گیا۔
دوسری بات یہ کہ مارچ 2022ء سے جتنے بھی اشاریے منظر عام پر آئے، اس میں گراوٹ دکھائی گئی ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ایک تخمینہ کے مطابق 2020ء سے 23 کروڑ لوگ غربت کا شکار ہوئے ہیں، اس طرح 2019ء میں غربت میں کمی کا جو دعویٰ کیا گیا، وہ غلط ثابت ہوا یا اس کے فوائد حاصل نہ ہوسکے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران روزگار اور ملازمتوں سے جو لوگ محروم ہوئے، ان کے اعداد و شمار بھی نظرانداز کئے گئے۔ اب ایک اور تازہ تنازعہ منظر عام پر آیا ہے، حال ہی میں واشنگٹن میں ہماری وزیر فینانس نے دعویٰ کیا کہ کوئی کووڈ ٹیکس عوام پر عائد نہیں کیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے 2020-21ء اور 2021-22ء میں صرف فیول پر ہی 8,16,126 کروڑ روپئے ٹکیکس حاصل کیا اور سرکاری خزانہ کو تیل کمپنیوں سے 72,531 کروڑ روپئے منافع حاصل ہوا۔ شرم کی بات یہ ہے کہ کووڈ سے ہونے والی اموات کو کم سمجھا جاتا ہے، غربت میں کمی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، ساتھ ہی حد سے زیادہ محاصل کے بارے میں بالکل بھی نہیں بتایا جاتا۔