برندا کرت
مرکز میں موجودہ حکومت کے تحت ریاستوں کے اُمور میں گورنروں کی مداخلت میں اس قدر زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، خاص طور پر اپوزیشن زیراقتدار ریاستوں میں پالیسی اور حکمرانی کے معاملات میں گورنروں کی مداخلت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے میں جو ریاستیں گورنروں کی مداخلت سے متاثر ہوئیں، انہیں ’’گورنر رائٹیز‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایسی متاثرہ ریاستوں میں مغربی بنگال، ٹاملناڈو، راجستھان، تلنگانہ، دہلی، پڈوچیری (سابق میں) اور یقینا کیرلا شامل ہے جہاں تک گورنروں کی مداخلت یا Governor-itis کا سوال ہے، وہ کئی طریقوں سے کام کرتا ہے۔ یہاں ہم اس کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ پہلی مثال وہ کوششیں ہیں جس کی ہماری دستور میں کوئی اجازت نہیں ہیں، جیسے مخصوص تعلیمی اداروں کے اعلیٰ عہدوں (وائس چانسلرس) پر فائز شخصیتوں کو اندرون 24 گھنٹے مستعفی ہوجانے کا حکم دیتا حالانکہ یہ وہ تعلیمی ادارے ہیں جو مقننہ کے ذریعہ پلینری منظوری کے تحت قائم کئے گئے ہیں اور بڑی کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گورنر کا یہ کہنا کہ وہ فلاں وزیر سے ناخوش ہیں۔ آج کیلئے یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ گورنر آئٹیز کا رجحان اس قدر عام ہوگیا ہے کہ گورنر ہر روز ریاستی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ دہلی، کیرالا اور تلنگانہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ لوگ ریاستی حکومتوں پر کھلے عام تنقیدیں کررہے ہیں۔ جسے ایک منتخبہ حکومت کے کام میں مداخلت ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگر روز روز ریاستی حکومتوں یا حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر ان کی کارکردگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ آج کل یہ بھی رجحان دیکھا جارہا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں میں جو بلز متعارف و منظور کئے جاتے ہیں۔ بعض گورنرس ان بلز کی منظوری میں تاخیر کرتے ہیں۔ وہ مختلف اُمور میں مداخلت اور ہدایات کو اپنا اختیار تمیزی قرار دے کر اپنی برتری ثابت کرتے ہیں۔ گورنر آئٹیز Governor-itis کے قطع نظر اگر انفرادی طور پر دیکھا جائے تو وہ شخصی طور پر بہت ہی مہذہب ہوسکتے ہیں لیکن ان کے تقررات کو مرکزی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے مخصوص سیاسی تقررات کہا جاتا ہے تاکہ منتخبہ ریاستی حکومتوں کو غیرمستحکم کیا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی نے 2024ء کے عام انتخابات میں کامیابی کیلئے مشن 2024ء شروع کیا ہے جس کا مقصد اصل میں کسی بھی طرح سے تمام غیربی جے پی ریاستی حکومتوں کو زوال سے دوچار کرکے ان ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں قائم کرنا ہے اور ہم نے سال 2014ء سے اس معاملے میں ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے ذریعہ حکومتوں کو زوال سے دوچار ہوتے دیکھا ہے اور اس ضمن میں یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2014ء سے اب تک ہم نے ملک کی 12 ریاستوں میں بی جے پی کی اس کوشش کا مشاہدہ کیا۔ یعنی انحراف کی حوصلہ افزائی کی گئی آپریشن لوٹس کے ذریعہ ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کرتے ہوئے حکومتوں کو گرانے کیلئے ممکنہ حربے استعمال کئے گئے۔ ان 12 ریاستوں میں سے بی جے پی کی کوشش صرف دو ریاستوں میں ناکام رہی (راجستھان اور جھارکھنڈ) پہلا طریقہ تو ارکان اسمبلی کی وفاداریوں کی خرید کا ہے۔ دوسرا طریقہ بی جے پی حکومتوں کی جانب سے سی بی آئی ،انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا استعمال ہے۔ ان ایجنسیوں کے ذریعہ ان اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی یا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے حکمراں پارٹی کے سامنے جھکنے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اپنی سیاسی جماعتوں سے غداری کرنے سے انکار کردیا اور جنہوں نے بی جے پی میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ بی جے پی کے سامنے جھکنے اور اپنی وفاداری تبدیل کرکے زعفرانی جماعت میں شامل ہونے والوں میں موجودہ چیف منسٹر آسام کی مثال ہمارے سامنے ہے یا پھر مغربی بنگال اسمبلی انتخابات اور اس کے بعد ترنمول کانگریس کے بے شمار قائدین ارکان پارلیمنٹ و ارکان اسمبلی کی بی جے پی میں شمولیت کی مثالیں ہمارے سامنے ہے۔ ان لوگوں پر مختلف اسکینڈلس، اسکامس اور بے قاعدگیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے لیکن جیسے ہی یہ حکمراں بی جے پی میں شامل ہوئے ان کے خلاف عائد تمام الزامات اور مقدمات جیسے منجمد ہوگئے اور جب تک وہ حکمراں بی جے پی میں رہیں گے۔ اس کی قیادت کے اشاروں پر کام کریں گے ’’حکم میرے آقا‘‘ کہیں گے تب تک ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا ، کوئی تحقیقات نہیں کی جائے گی، کوئی انکوائری کمیشن نہیں بٹھایا جائے گا۔ حکمراں جماعت نے اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے اور اپوزیشن برسراقتدار ریاستوں میں حکومتوں کو بیدخل کرنے مذکورہ دو طریقے بڑی مہارت سے استعمال کئے اور اس سلسلے میں جو تیسرا اور نیا طریقہ Governor-itis کا ہے یعنی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے گورنروں کا استعمال اس کا سب سے اہم مقصد ریاستی حکومتوں کو غیرمستحکم کرنا ہے۔