سپریم کورٹ کا کہنا ہے فیصلہ اس بنیاد پر نہیں ہوگا کہ کونسا سیاسی نظام اقتدار میں ہے یا تھا
نئی دہلی، 2ستمبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس معاملے کی سماعت کے چھٹے دن منگل کو یہ واضح کیا کہ وہ اس بنیاد پر فیصلہ نہیں کرے گا کہ کون سا سیاسی نظام اقتدار میں ہے یا تھا۔ عدالت صرف آئین کی تشریح کرے گی اور مخصوص مثالوں پر غور نہیں کرے گی۔چیف جسٹس بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرانت ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اتل ایس چندرکر پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کے دوران یہ بات کہی۔بنچ نے درخواست گزاروں سے جاننا چاہا کہ اگر صدر جمہوریہ یا گورنر 8 اپریل 2025 کو تمل ناڈو معاملے میں اس عدالت کی مقررہ مدت کے اندر بلوں پر فیصلہ نہیں کرتے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے ؟ عدالت نے یہ بھی شبہ ظاہر کیا کہ کیا تمام بلوں کیلئے کوئی مقررہ مدت طے کرنے کا اختیار اس کے پاس ہے ۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے پوچھا، ‘‘اگر بل مقررہ وقت کے اندر منظور نہیں ہوتے تو کیا گورنر یا صدر پر عدالت کی توہین کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ؟’’ اس پر تمل ناڈو حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ بلوں پر ‘‘مفروضہ منظوری’’ ایک نتیجہ ہو سکتی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ بلوں کو منظوری دینے میں تاخیر کے چند معاملات کو دیکھتے ہوئے گورنروں اور صدرجمہوریہ کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 اور 201 کے تحت ایک مقررہ مدت طے کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ بنچ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا عدالت آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنی طاقتوں کا استعمال کرکے گورنر اور صدرجمہوریہ کی کارروائی کیلئے کوئی سیدھا فارمولہ وضع کر سکتی ہے ۔ اس نے کہا کہ اگر تاخیر کے انفرادی معاملات ہوں تو متاثرہ فریق عدالت سے رجوع کر سکتا ہے اور عدالت وقت مقرر کرکے فیصلہ کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ عدالت سب کیلئے ایک عمومی مدت طے کر دے ۔ سنگھوی نے استدلال کیا کہ چونکہ گورنر بار بار بلوں کو غیر معینہ مدت کیلئے روک لیتے ہیں، اس لیے ایسی مدتیں ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بل کو مسترد کرنے کا حق صرف کابینہ کو ہے ، کسی اور کو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنر کسی بل کا آخری ثالث نہیں ہو سکتا۔ گورنر کسی بل کو منظور نہیں کر سکتا، مسترد نہیں کر سکتا یا جج کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ وہ نہ آخری ثالث ہے نہ سوپر وزیراعلیٰ۔ آئین سے متصادم بل تو روز پاس ہوتے ہیں اور ان کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں، چاہے اکثریت نے ہی اسے پیش کیا ہو۔ یہی اختیارات کی علیحدگی ہے ۔ بنچ نے سوال کیا کہ کیا عدالت ایسے بلوں پر بھی مفروضہ منظوری دے سکتی ہے جن پر گورنر نے کوئی کارروائی نہ کی ہو۔ اس پر سنگھوی نے کہا کہ اگر گورنر اور صدرجمہوریہ کو عدالتی نظرثانی سے چھوٹ دی گئی تو ان کے اختیارات کی کوئی حد باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 کی ساخت بذاتِ خود ایک مدت کی پابندی میں ہے اور گورنر کو ایک مناسب مدت میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ بنچ نے کہا کہ مختلف معاملات میں مختلف حقائق ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سب بلوں کیلئے ایک ہی مدت کیسے ہو سکتی ہے ؟ بنچ نے اس پر بھی شبہ ظاہر کیا کہ کیا عدالت گورنر کیلئے مدت طے کر سکتی ہے ۔ سنگھوی نے کہا کہ چونکہ گورنر بار بار بلوں کو غیر معینہ مدت تک روکے رکھتے ہیں، اس لیے سپریم کورٹ کے ذریعے مدت مقرر کرنا ناگزیر ہے ۔