8بلز کو منظوری دینے کیلئے سات ماہ سے دو سال کی مدت تک زیر التوا رکھنے پر سوالیہ نشان
نئی دہلی :سپریم کورٹ نے آٹھ بلوں پر فیصلہ کرنے میں گورنر کی طرف سے تاخیر کے خلاف کیرالا حکومت کی درخواست پر مرکز ی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔سپریم کورٹ نے پیر کو کیرالا حکومت کی درخواست پر مرکز کو جاری نوٹس جاری کی ۔ درخواست میں گورنر کی طرف سے سات ماہ سے لے کر دو سال کی مدت کے لیے زیر التوا آٹھ بلوں پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔کیرالہ حکومت نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا کہ گورنر عارف محمد خان اسمبلی سے منظور شدہ بلوں کی منظوری میں تاخیر کر رہے ہیں جو عوام کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت نے کیرالا مقننہ کے ذریعہ منظور کیے گئے آٹھ بلوں کے سلسلے میں گورنر کی جانب سے عدم فعالیت کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں سے بہت سے بلوں میں بے پناہ عوامی مفادات شامل ہیں اور ایسے فلاحی اقدامات فراہم کیے گئے ہیں جو جنوبی ریاست کے لوگوں کے لیے ضرورت ہیں لیکن ان کی منظوری میں تاخیر سے وہ بڑی حد تک محروم رہیں گے۔درخواست دہندہ – ریاست کیرال اپنے لوگوں کے لئے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے منظور شدہ آٹھ بلوں کے سلسلے میں ریاست کے گورنر کی جانب سے عدم فعالیت کے سلسلے میں مناسب احکامات کا سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتی ہے ۔ ان بلز کو ریاستی مقننہ اور آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کو ان کی منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔کیرالہ حکومت کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے ان میں سے، تین بل دو سال سے زیادہ اور تین مزیدا یک سال سے زیادہ عرصے سے گورنر کے پاس زیر التواء ہیں۔ آئین کے بشمول قانون کی حکمرانی اور جمہوری گڈ گورننس، ریاست کے لوگوں کے حقوق کو نقصان پہنچانے کے علاوہ بل کے ذریعے نافذ کیے جانے والے فلاحی اقدامات کیلئے منظوری میں تاخیر کافی نقصان دہ ہے۔ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ گورنر کے ذریعہ ریاست کے عوام کے ساتھ ساتھ اس کے نمائندہ جمہوری اداروں کے ساتھ بھی شدید ناانصافی کی جارہی ہے جس میں تین بلوں کو دو سال سے زیادہ عرصے سے التوا میں رکھا گیا ہے۔گورنر کا خیال ہے کہ منظوری دینا یا بصورت دیگر بلوں سے نمٹنا ان کی مکمل صوابدید پر ان کے سپرد ہے جب وہ چاہیں اس پر فیصلہ کریں۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ آئین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ ۔درخواست میں کہا گیا کہ بلوں کو طویل اور غیر معینہ مدت تک زیر التواء رکھنے میں گورنر کا طرز عمل بھی صریح طور پر من مانی ہے اور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔
