رام پنیانی
احمدآباد میونسپل کارپوریشن کی ٹاؤن پلاننگ کمیٹی نے حال ہی میں بطور خاص اس بات کا حوالہ دیا کہ سڑکوں کے کنارے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے اسٹالس کو نان ویج ایٹمس یا گوشت، انڈا، چکن، مچھلی وغیرہ سے تیار کردہ غذائی اشیاء فروخت کرنے کی اجازت نہیں رہے گی۔ ایسی غذائیں اسکولس، کالجس، مذہبی مقامات سے 100 میٹر کے دائرے میں فروخت نہیں کی جاسکیں گی۔ احمدآباد میونسپل کارپوریشن کی ٹاؤن پلاننگ کمیٹی کے ان ہی خطوط پر ودودرا، بھاؤ نگر، جونا گڑھ اور راج کوٹ بلدی اداروں نے بھی فیصلے لئے۔ جب مسلمانوں کی جانب سے بیف استعمال کرنے کی مزید تحقیقات کی گئی تو اس پروپگنڈہ کو مزید آگے بڑھانے کا موقع مل گیا اور یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ گائے ہندوؤں کیلئے مقدس ہوتی ہے اور اس کا گوشت کھاکر مسلمان، ہندوؤں کے جذبات مجروح کررہے ہیں۔ دوسری طرف گائے۔ بیف کے بہانے ہجومی تشدد خود میں ایک علیحدہ باب ہے۔ دو مسئلوں کو جان بوجھ کر ایک دوسرے میں خلط ملط کردیا گیا۔ پہلا مسئلہ یہ کہتے ہوئے بنایا گیا کہ نان ویج غذائی اشیاء پرتشدد رجحان کا باعث بن رہے ہیں اور دوسرا مسلمانوں کی جانب سے بیف کھانا ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ یہ واضح ہے کہ نان ویج غذائی اشیاء مختلف مقامات سے دیگر مقامات اور مختلف کمیونٹیز سے دیگر کمیونٹیز منتقل ہوتے ہیں، لیکن ہر کمیونٹی کے کھانے پینے کے عادات و اطوار بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض سبزی خور ایسے ہوتے ہیں جو انڈا کھانے پر اعتراض نہیں کرتے، انڈے سے انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ بعض لوگ آبی غذاؤں جیسے مچھلی وغیرہ کو سبزی خوروں کی طرح پسند کرتے ہیں جبکہ دوسروں کیلئے یہ آبی غذائیں نان ویجیٹیرین فوڈ ہیں۔ اگر آج کی دنیا میں کھانے پینے کے عادات و اطوار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی 80% آبادی نان ویج ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران انڈیا اسپینڈ نے ایک سروے کیا، اس سروے کے مطابق ہندوستانی مردوں میں سے 80% اور خواتین میں سے 70% ہفتہ میں ایک مرتبہ گوشت ضرور کھاتے ہیں، لیکن نشانہ ہندوستانی مسلمانوں کو بنایا جاتا ہے۔ یوروپی اور امریکی شہری وغیرہ بھی گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور ان میں بھی سبزی خور بھی شامل ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یوروپی اور امریکی شہریوں میں جارحانہ اور پرتشدد رجحان یا کیفیت دکھائی نہیں دیتی۔ کئی ایسی معاشرے ہیں جن کی غذائی عادات و اطوار کا بیف ایک اہم حصہ ہے۔ گوشت خوری اکثر معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ مختلف سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ زیادہ تر معاشروں بشمول اکثر ریاستوں جس میں گجرات جیسی ریاست بھی شامل ہے، نان ویج غذائی اشیاء کا استعمال عام ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نان ویج غذائی اشیاء سے متعلق فکر کو لے کر نفرت بھی پائی جاتی ہے اور اس طرح کی فکر رکھنے والا ایک مخصوص طبقہ ہے۔ بدھ ازم کے ایک کٹر پیرو راجہ اشوک نے شاہی باورچی خانہ کو جو احکامات دیئے تھے ، اس میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ جتنے جانور اور پرندے مارے جائیں ان کا باورچی خانہ میں غذائی اشیاء کی تیاری کیلئے استعمال کیا جانا ضروری ہے۔ بدھا ہو یا بعد میں اشوک کی جانب سے جانوروں کی بلی کو روکے جانے کا سوال ہے، جانوروں کی بلی دراصل برہمنی رسم و رواج کا ایک حصہ تھا۔ جب جانوروں کی بلی روک دی گئی ، اس کے ردعمل میں برہمن ازم نے گاؤ ماتا کے پراجیکٹ کو سامنے لایا اور پھر برہمن ازم نے ہی اور اس کے اطراف کی سیاست نے گائے کو ماتا کا درجہ دے دیا۔ جہاں تک پرتشدد شخصیت اور غذا کا سوال ہے ، اس بارے میں سائنسی ادب میں یہ ثابت کرنے کیلئے زیادہ مواد دستیاب نہیں ہے۔ جہاں تک غصہ اور تشدد کا سوال ہے، یہ کسی بھی انسان کی شخصیت پر انحصار کرتا ہے۔ یہ نفسیات پر مبنی ہے اور سماجی، سیاسی اور خاندانی حالات کی بنیاد پر ایک نئی شکل پاتے ہیں اور صورتحال کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
طب کے کئی طریقے ہیں اور ایک روایتی طریقہ علاج بالغذا ہے۔ سٹوک (خالص اور خاموش شخصیت کیلئے) ، ٹامسک (برہمی و غصہ ) اور راج سک (شاہی) کھانوں میں یہ تقسیم کیا گیا، لیکن ان تمام اقسام کے کھانوںسے غصہ و برہمی کو جن کھانوں سے جوڑا گیا، اس کی تائید نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جانا کہ گوشت خوروں کی طبیعت یا مزاج میں تشدد پایا جاتا ہے، بالکل غلط ہے بلکہ کھانے چاہے وہ سبزی سے تیار کردہ ہو یا گوشت سے انسانی جسم کو طاقت عطا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں گوشت خوری کے خلاف اور سبزی خوری کے موافق میں مہم دراصل ایک سیاسی ایجنڈہ کا حصہ ہے اور اسے مذہب کے ساتھ خلط ملط کیا جارہا ہے۔ اب تو یہ مسئلہ جذبات سے جڑ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ گوشت خوروں کو جو اپنے پڑوس میں مقیم ہیں، بڑی سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔ کئی ایسی ہاؤزنگ سوسائٹیز ہیں جہاں پر گوشت کھانے والوں کو فلیٹس یا مکانات فروخت یا کرایہ پر دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔ احمدآباد میں مَیں نے خود دیکھا ہے کہ مکان دار مرد یا خواتین اپنے کرایہ داروں کے کچن میں داخل ہوتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں سبزی خوروں کے اصولوں پر سختی سے عمل آوری ہورہی ہے یا نہیں۔ اب اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ بھی مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایک اور آلہ بن گیا۔ بہرحال احمدآباد میں بلدیات نے جو کچھ بھی احکامات جاری کئے اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ سبزی خوری کا پروپگنڈہ کرنے والے خود عدم رواداری و عدم برداشت کا شکار ہیں اور اسی کی طرف ان کا جھکاؤ بڑھتا جارہا ہے۔