’گھروالوں کو نہ نکال سکی‘ طالبان کے ڈر سے ملک چھوڑنے والی خاتون افسردہ

   

نیویارک: آج سے ٹھیک ایک سال قبل کابل ایئرپورٹ کی جانب بھاگنے والے لوگوں میں مسعودہ کوہستانی بھی شامل تھیں، جن کو طالبان کی آمد نے اس قدر خوفزدہ کیا کہ ملک چھوڑ دینے میں ہی عافیت جانی۔مسعودہ ایک ایسی پرواز میں سوار ہونے میں کامیاب ہوئیں جس نے خلیج سے ہوتے ہوئے اسپین جانا تھا۔ان کی والدہ اور درجن بھر کے قریب رشتہ دار بھیڑ کی وجہ سے جہاز میں سوار نہ ہو پائی۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی 41 سالہ مسعودہ نے کابل میں اپنی والدہ کے ساتھ فون پر جذباتی کال کے فوراً بعد روئٹرز کو بتایا کہ مجھے یہ احساس خوفزدہ کرتا ہیکہ میں نے اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ دیا، جن میں میری بیمار والدہ بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گھروالوں کے پاس اتنے پیسے موجود نہیں ہیں کہ اپنے اخراجات برداشت کر سکیں۔ وہ انہیں کابل نہ نکال سکی جس کا انہیں ہمیشہ افسوس رہے گا۔
، اس سے قبل وہی اخراجات برداشت کرتی تھی۔اگرچہ حتمی طور پر اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں کہ 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے پر کتنے لوگ وہاں سے فرار ہوئے، تاہم یہ تعداد ہزاروں میں ضرور ہے۔
روئٹرز نے 13 افغان انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کی ہے جو طالبان کی آمد کے بعد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور ان کو امید ہے کہ ایک روز وہ پھر سے اپنے گھر لوٹیں گے۔مرد اور خواتین ایسے ملک میں جانے سے کترا رہے ہیں جس کی حکومت نے بنیادی آزادیوں کو محدود کیا ہوا ہے۔افغان وزارت داخلہ کے نائب ترجمان بسم اللہ حبیب کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان تمام افغانوں کو واپس آنے کی دعوت دی ہے جو ملک چھوڑ گئے تھے اور واپسی میں مدد کے لیے ایک خصوصی کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔مسعودہ کوہستانی اس وقت اسپین میں موجود ہیں، انہوں نے روئٹر کو بتایا کہ ان کے مہاجر کے سٹیٹس کی تصدیق کر دی گئی ہے جو پانچ سال کے لیے ہے۔دوسری جانب سپین کی وزارت داخلہ نے انفرادی کیسز پر بات کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ وزارت کے ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً تین ہزار افغان سپین پہنچے جو سیاسی پناہ کے خواہشمند تھے، ان میں سے تقریباً دو ہزار نے درخواست دی ہے اور اب تک 15 سو افراد کو سیاسی پناہ دی گئی ہے