نئی دہلی: 2008ء میں رام پور میں سی آر پی ایف کیمپ پر حملہ کے 11سال بعد محمد کوثر اور غلام خان بری کردئے گئے ہیں۔ تاہم دونوں اس بات کو لے کر فکر مند ہیں کہ کیا کورٹ کا حکم ان پر لگا دہشت گرد ہونے کا داغ مٹا پائے گا؟48سالہ محمد کوثر پرتاپ گڑھ کے کنڈا علاقہ میں ایک الیکٹرانکس کی دکان چلایا کرتے تھے۔ اور 41سالہ غلام خان بریلی میں ایک ویلڈنگ کی دکان چلایا کرتے تھے۔ دونوں کے پریواروں نے مقدمہ لڑنے کے لئے اپنی دکانو ں کے علاوہ دیگر بچی ہوئی رقم بھی صرف کردی۔ ان دونوں کا کہنا کا اب دوبارہ ان کا کاروبا ر شروع کرنا ان کے لئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ ہفتہ کو رام پور کی عدالت نے 2008کے حملوں کیلئے چار ملزمان کی موت کی سزاء سنائی۔
اس حملہ میں 7سی آرپی ایف جوان ہلاک ہوئے تھے۔ وہیں حملہ سے قبل جرم میں استعمال ہتھیار اپنے گھروں میں چھپانے کے الزام میں غلام خان اور کوثر کو ثبوتوں کی عدم موجودگی میں بری کردیا گیا ہے۔ حملہ کے ایک ماہ بعد کوثر کو اس دکان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ محمد کوثر نے بتایا کہ ایک سینئر پولیس افسر نے مجھ سے دو یا تین سوالات پوچھے او رپھر ایک کمرہ میں لے گئے۔ دو دن بعد مجھے عدالت میں پیش کیا گیا جہاں مجھے جیل بھیج دیاگیا۔ محمد کوثر نویں جماعت تک تعلیم حاصل کئے ہیں۔ وہ سعودی عرب میں ایک الیکٹرانکس کی دکان پر دس سال کام کرچکے ہیں۔ اس کے بعد وہ 2005میں ہندوستان واپس آئے۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار کے بعد انہیں مالی پریشان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بچوں کو تعلیم ترک کرنی پڑی۔ ان کی بیوی گھر چلانے کے لئے کپڑے سینے کا کام کرنے لگی۔ رشتہ دار گھر آنا جانا چھوڑ دیئے۔ کیس لڑنے کے لئے دکان فروخت کرنی پڑی۔ بریلی سنٹرل جیل سے 9فروری کو رہا ہونے کے بعد کوثر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی تکالیف ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ آسانی سے مجھ پر اعتماد نہیں کریں گے۔ مجھے ان کا بھروسہ حاصل کرنے کے لئے دوبارہ جد و جہد کرنا پڑے گا۔ گلاب خان کی بیوی نظارہ نے بتایا کہ ان کا شوہر کی واپسی پر وہ اوپر والے کا شکر ادا کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک میرے شوہر واپس ضرور آئیں گے۔ کیونکہ انہیں جھوٹے الزام میں پھنسایاگیا تھا۔ گلاب خان کو ان کی دکان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ جگہ رامپور سے 70کیلومیٹر واقع۔ پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کیا جہاں انہیں جیل کی سزاء سنائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کیس لڑنے کے لئے انہیں ان کی دکان فروخت کرنی پڑی۔ مالی بحران کے سبب ان کی بیوی کپڑے سینے کا کام کرنے لگی۔ اس کام سے بھی صرف کھانے پینے کے اخرجات ہو پاتے تھے لیکن بجلی کا بل اور دیگر اخراجات نہ ہوپاتے تھے۔ بجلی کا بل نہ بھرنے کے سبب ان کی گھر سے بجلی کاٹ دی گئی تھی۔ غلام خان کے بڑے بھائی کمال خان نے بتایا کہ غلام کے تین بچوں کو اسکول ترک کرنا پڑا کیونکہ وہ فیس ادا کرنے سے قاصر تھے۔ غلام خان نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ ان افراد کی داستان رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے۔