گیان واپی مسجد و شاہی عیدگاہ متھرا تنازعات پر تشویش ‘ یکساں سیول کوڈ ناقابل قبول

,

   

وقف املاک کے استعمال پر حکومت کرایہ ادا کرے ۔ مسلم معاشرہ کو برائیوں سے بچانے کی تلقین ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا اجلاس۔ قرار دادیں منظور

حیدرآباد 18 جنوری ( سیاست نیوز ) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد ‘ متھرا کی شاہی عیدگاہ کے تعلق سے مختلف عدالتوں میں تنازعات پیدا کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ پرسنل لا بورڈ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ عبادتگاہوں سے متعلق 1991 کا جو قانون ہے اس کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کردیا تھا ۔ اس کے باوجود تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں جو تشویش کی بات ہے ۔ اجلاس نے تشویش کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا امکان ختم ہوگیا ہے ۔ تاہم اب عدالتوں ہی سے مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل نئے تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہے اور ان کو فوری روکنے کی ضرورت ہے ۔ یہ اندیشے تقویت پانے لگے ہیں کہ شرپسند طاقتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے فتنے اور تنازعات پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی ۔ اس کے علاوہ بورڈ نے ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے وسیع و عریض ملک میںیکساں سیول کوڈ کی بھی مخالفت کی ہے اور کہا کہ کثیر مذہبی اور کثیرثقافتی ملک کیلئے یکساں سیول کوڈ بالکل بھی موزوں نہیں ہے ۔ بورڈ نے آج حیدرآباد میں معہد العالی الاسلامی میں اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس رائے کا اظہار کیا اور مختلف قرار دادیں منظور کرتے ہوئے اپنے موقف کو واضح کردیا ہے ۔ بورڈ کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کو دستور میں جو ضمانتیں دی گئی ہیں ان کو یکساں سیول کوڈ کی وجہ سے ختم کیا جاسکے گا اس لئے نہ مرکزی حکومت کو اور نہ ہی کسی ریاستی حکومت کو یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ بورڈ نے کہا کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کی تجویز بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ ملک بھر میں جتنی بھی اوقافی املاک حکومتوں کے استعمال میں ہیں مارکٹ کی شرح سے ان کا کریہ ادا کیا جائے ۔ا س کے علاوہ منشائے وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کرے تاکہ مسلمان اپنے آبا و اجداد کی محفوظ کی ہوئی اس دولت سے استفادہ کرسکیں۔ بورڈ نے واضح کیا کہ وقف اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اور مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کرسکتا ۔ اس کو مقررہ مصروف ہی میں استعمال کرنا ضروری ہے ۔ یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو قبول کرتا رہا ہے ۔ علاوہ ازیں بورڈ نے اپنے اجلاس میں وقف کے متولیان سے بھی خواہش کی کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے ناجائز استعمال سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کے اقدامات کریں۔ بورڈ نے مسلمانوں کو خیر امت بنایا ہے اس کے باوجود خود مسلم معاشرہ میں کئی برائیاں سرائیت کر گئی ہیں۔ خاص کر نکاح کو مشکل بنادینے کی وجہ سے سماج میں کئی برائیاں پنپ رہی ہیں۔ اجلاس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ نکاح جیسی مقدس تقریب کو آسان بنائیں۔ سنت کے مطابق نکاح کریں اور لڑکی والوں سے کسی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے ۔ اجلاس کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ نے کی اور جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کارروائی چلائی، بورڈ کے نائب صدر جناب سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے سکریٹریز مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی (مالیگاؤں)، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (بہار) ، مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی (بدایوں)، بورڈ کے خازن پروفیسر ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، جسٹس سید شاہ محمد قادری، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر آف پارلیمنٹ جناب اسد الدین اویسی، مولانا نثار حسین حیدرآغا (فرقہ اثنا عشریہ)، مولانا محمد جعفر پاشاہ ، مولانا مسعودحسین مجتہدی (فرقہ مہدویہ) ، سینئر ایڈوکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ترجمان(دہلی)، مولانا عبدالعلیم قاسمی (بھٹکل)، ڈاکٹر ظہیر ائی قاضی ( ممبئی ) ،جناب محمد طاہر حکیم ایڈوکیٹ( گجرات) جناب کمال فاروقی (دہلی)، جناب ضیاء الدین نیر، ڈاکٹر محمد مشتاق علی، مولانا سید اکبر نظام الدین، ڈاکٹر متین الدین قادری، جلیسہ سلطانہ یٰسین ایڈوکیٹ، عطیہ صدیقہ ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ فاطمہ مظفر اور ملک بھر سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔