رام پنیانی
میڈیا میں آج کل گیان واپی مسجد کے بارے میں بہت زیادہ چرچے ہیں، شور شرابہ ہے۔ سردست راکھی سنگھ اور دیگر نے ایک عرضی داخل کرتے ہوئے شرنگر گوری، ہنومان اور گنیش کی روزانہ کی بنیاد پر پوجا کرنے کی اجازت دینے کی التجا کی ہے۔ گیان واپی مسجد کی بیرونی دیوار پر شرنگر گوری کی تصویر ہے جو ہندوؤں کی دیویوں میں سے ایک دیوی ہے۔ شہادت بابری مسجد کے بعد عقیدت مندوں کی روزانہ کی بنیاد پر رسائی روک دی گئی تھی اور سکیورٹی سخت کرتے ہوئے اس دیوی کی پوجا صرف چیترا نوراترا کے چوتھے دن ہی کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس حساس مسئلہ پر وارناسی سیول جج، روی کمار دیواکر کی عدالت نے 26 اپریل 2022ء کو مسجد کامپلیکس کی ویڈیو گرافی کی اجازت دے دی۔ (مسجد کامپلیکس بشمول تینوں گنبدوں، وضو کے حوض وغیرہ کے ویڈیو سروے کی اجازت دی گئی) اور یہ ویڈیو سروے کرنے کا شرنگر گوری مندر کے ایڈوکیٹ کمشنر کو حکم دیا گیا حالانکہ سارا ہندوستان جانتا ہے کہ 1991ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947ء کے تمام عبادت گاہوں (چاہے وہ مندر ہوں یا مساجد) کا موقف جوں کا توں رہے گا) ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی سوائے بابری مسجد کے ۔ مذکورہ قانون میں جب یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947ء کو عبادت گاہوں کا جو موقف تھا، وہ جوں کا توں رہے گا تو پھر گیان واپی مسجد کی یہ ویڈیو گرافی کیوں؟ ایسا لگتا ہے کہ واراناسی کی مقامی عدالت کے فاضل جج اس قانون کی موجودگی کو فراموش کرچکے ہیں!
عدالت میں ایک اور درخواست داخل کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کاشی کے گیان واپی مسجد کامپلیکس میں ہندوؤں کے بھگوان وشواناتھ (اُترپردیش کی واراناسی میں) کا جیوتر لنگ موجود ہے۔ درخواست گذار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 1669ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے کاشی وشواناتھ مندر کا ایک حصہ ڈھا دیا تھا اور وہاں گیان واپی مسجد کی تعمیر عمل میں لائی تھی۔ درخواست گذار عدالت سے اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ یہ اعلان کردے کہ مسلمانوں کا گیان واپی مسجد کے مقام پر کوئی حق نہیں ہے اور اس مسجد میں ان کا داخلہ بند کردیا جائے یا مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کی جائے۔ باغیوں نے مندر کو اپنا خفیہ اڈہ بنالیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اورنگ زیب نے اسے منہدم کردینے کا حکم دیا، تاہم ڈاکٹر پانیکر نے حقیقی دستاویز اور معلومات کے ذریعہ کا کوئی حوالہ نہیں دیا، اس لئے بے شمار لوگوں نے ان کے دعویٰ پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے۔
ہمارے ملک نے 6 ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے ہولناک جرم کا مشاہدہ کیا، ساری مہم اس پروپگنڈہ پر چلائی گئی کہ سال 1949ء میں بابری مسجد میں رام للا کی مورتیاں پُراسرار طور پر نمود ہوئیں۔ مورتیوں کی تنصیب کوئی معمہ نہیں تھا جیسا کہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے کیا تھا۔ ان لوگوں نے جان بوجھ کر اس کی منصوبہ بندی کی اور ہمارے ملک کی عدالت عظمی نے بابری مسجد میں مورتیوں کی تنصیب کو ایک جرم قرار دیا تھا۔ رام مندر کی مہم کو بتدریج یہ کہتے ہوئے شدت کے ساتھ آگے بڑھایا اور کہا کہ بابر نے رام مندر کو گرایا تھا جو دراصل بھگوان رام کی جائے پیدائش تھی اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلہ میں جھول اور جھکاؤ رکھنے کے باوجود یہ فیصلہ صادر کیا کہ اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جس جگہ بابری مسجد کھڑی تھی، وہاں بھگوان رام کا مندر تھا۔ عدالت نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ بھگوان رام کے وہاں پیدا ہونے کا کوئی ثبوت موجود ہے، تاہم اس ساری مہم نے بی جے پی آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں کو بھرپور سیاسی فائدہ پہنچایا۔ رام مندر مہم کی پشت پر سوار ہوکر بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنی انتخابی اور سماجی طاقت میں اضافہ کیا جہاں تک تاریخ کا سوال ہے، وہ ایک ہمہ جہتی نظام ہے۔ بادشاہوں کا اصل مقصد مذہب نہیں بلکہ اقتدار تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی سلطنوں کو وسعت دینے کے خواہاں رہا کرتے تھے۔ پاکستان میں بھی یہی حال رہا۔ لیکن وہاں انداز اور طریقہ الگ اختیار کیا گیا جہاں ہندوؤں کو مکمل طور پر مسلم بادشاہوں کے ماتحت کے طور پر پیش کیا گیا۔ آج جو تاریخ پیش کی جارہی ہے، اس کا نمونہ ہندی سواراج میں گاندھی نے جن اُمور پر روشنی ڈالی، اس سے بالکل متضاد اور اس کے برعکس ہے۔ گاندھی نے ہند سواراج میں لکھا کہ ہندو ۔مسلم حکومتوں میں پھلے پھولے اور مسلمانوں نے ہندو حکمرانوں کی حکمرانی میں خوشحالی زندگی گذاری۔ ہر فریق نے اس امر کو تسلیم کیا کہ آپسی جھگڑے خودکشی کے مترادف ہیں اور کسی بھی فریق نے تلوار کی زور پر اپنا مذہب ترک نہیں کیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے پرامن بقائے باہم کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا لیکن جب انگریز ہندوستان میں تجارت کے بہانے داخل ہوئے۔ اپنے مفادات کی خاطر ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا، جھگڑے کروائے۔ اسی طرح جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں ہندوستان کے تہذیبی تنوع اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اسی تہذیب کو انہوں نے گنگا جمنی تہذیب کا نام دیا۔ ہندوستانی قوم پرست دھارے کی اس سوچ و فکر کے برعکس فرقہ پرست ،مسلمانوں پر بیرونی باشندے ہونے، مسلم بادشاہوں کو مندروں کو تباہ و برباد کرنے والے اور طاقت کے زور پر اسلام پھیلانے والے قرار دے کر اسے مسائل میں تبدیل کرکے اپنے مفادات کی تکمیل پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے آپ کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے ایک خصوصی فارمولہ تیار کیا ہے اور اس کیلئے جذباتی مسئلہ کو آگے بڑھایا۔ نفرت کی بنیادیں ڈالی اور پھر فرقہ وارانہ تشدد برپا کروائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے لگا اور فرقہ پرست مضبوط ہونے لگے اور گیان واپی مسجد مسئلہ کا احیاء، اس سمت میں ایک اور کوشش ہے۔ بہرحال جواہر لال نہرو نے بھاکراننگل ڈیم کا افتتاح انجام دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے:
یہ جدید ہندوستان کے منادر ہیں اور یہی وہ ویژن تھا جس کے باعث ملک بھر میں تعلیمی اداروں، ریسرچ سنٹرس، صنعتی اکائیوں اور صحت کی سہولتوں کا قیام عمل میں آیا جس کی جدید ہندوستان کو شدید ضرورت تھی۔ آج ہمیں بھی مندر ۔ مسجد مسئلہ کو چھوڑ کر اس ویژن کا احیاء کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ قرون وسطیٰ کے دور میں بادشاہوں اور راجاؤں کی لڑائیاں اقتدار اور دولت کے حصول کی خاطر ہوا کرتی تھیں۔