رام پنیانی
مرکزی وزارت تہذیب و ثقافت نے گاندھی امن پرائز برائے سال 2021 گیتا پریس کو عطا کیا جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے ہندو مذہبی مخطوطات و کتابیں یا لٹریچر شائع کرنے کیلئے جانا جاتا ہے، یہ پریس گورکھپور میں واقع ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گیتا پریس اس باوقار اعزاز کا مستحق ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس نے گیتا پریس کو گاندھی پیس پرائز دیئے جانے کے اعلان پر جو پہلا ردعمل ظاہر کیا وہ کچھ یوں تھا۔ حکومت کی جانب سے گیتا پریس کو یہ اعزاز ساورکر کو اعزاز دینے جیسا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ’’گاندھی پیس پرائز‘‘ ایسا باوقار ایوارڈ ہے جس کی انعامی رقم ایک کروڑ روپئے ( 10 ملین روپئے ) ہوتی ہے۔ ماضی میں ان شخصیتوں کو یہ ایوارڈ عطا کیا گیا جنہوں نے نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ ان میں جولیس نیر ہرا ( تنزانیہ ) ، نیلسن منڈیلا ( جنوبی آفریقہ ) ، شیخ مجیب الرحمن ( بنگلہ دیش) اور مختلف سماجی ورکروں جیسے بابا آمٹے بھی شامل ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یہ گیتا پریس کے قیام کا صد سالہ سال ہے۔ یہ پریس قوم کے روحانی و باطنی ثقافتی ورثے کو فروغ دینے سے متعلق اعلان کردہ ہدف کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گیتا پریس کی زبردست تعریف و ستائش کی، ان کے خیال میں گیتا پریس نے تہذیبی و ثقافتی شعور بیدار کرنے اور اسے پھیلانے اور امن کیلئے غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں اس کے برعکس کانگریس کے ترجمان اور سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعہ گیتا پریس کی حقیقت کیا ہے اس کی پول کھول کر رکھ دی۔ انہوں نے گیتا پریس کو گاندھی پیس پرائز دیئے جانے پر شدید تنقید کی اور اپنے ٹوئیٹ میں کچھ یوں کہا ’’ اس تنظیم کی ایک عمدہ سوانح عمری اکشے مکل نے لکھی ہے جس میں انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ گیتا پریس کے کئی شعبوں چاہے وہ سیاسی، مذہبی اور سماجی ایجنڈہ ہی کیوں نہ ہو اس پر عدم اتفاق کیا، حکومت کا یہ فیصلہ حقیقی دھوکہ ہے اور ایسے ہی ہے جیسے یہ ایوارڈ ساورکر اور گوڈسے کو دیا گیا ہو‘‘ ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرقیادت کمیٹی نے گپتا پریس کو سال 2021 کا گاندھیے پیس ئرائز دینے کا فیصلہ کیا۔ گپتا پریس دراصل رامائن، گیتا، اُپنشد اور دوسری ہندو مذہبی کتب شائع کرتا ہے۔ اس کمیٹی کا کہنا تھا کہ عدم تشدد اور دیگر گاندھیائی نظریات و فلسفوں کے ذریعہ سماجی ، اقتصادی اور سیاسی تبدیلی لانے میں غیر معمولی خدمات کے باعث گاندھی پیس پرائز برائے سال 2021کیلئے گیتا پریس کا انتخاب کیا گیا ( گورکھپور کے اس صد سالہ متنازعہ پبلشنگ ہاؤس کی سوانح عمری سے پتہ چلتا ہے کہ گیتا پریس اور گاندھی جی کے درمیان کبھی کوئی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ جہاں تک گیتا پریس کا معاملہ ہے ایک ایسے وقت اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جب ہندوؤں کا قدامت پسند طبقہ اس بات کو لیکر بہت زیادہ پریشان تھا کہ دلت‘ مساوات اور آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ خواتین زیور علم سے آراستہ ہوکر سماج میں اہم مقام و مرتبہ حاصل کررہے ہیں، معاشرہ میں مقام حاصل کررہے ہیں ۔ گیتا پریس کی بنیاد ہندو قوم پرست ہندو مہا سبھا کے قیام سے پہلے رکھی گئی تھی اور اس کے چند سال بعد آر ایس ایس کی تشکیل عمل میں آئی۔ بتایا جاتا ہے کہ گیتا پریس اور اس کا میگزین ’کلیان‘ ابتداء میں گاندھی جی کے خلاف نہیں تھا اور اس نے ان (گاندھی ) کی تحریروں یا مضامین کی اشاعت بھی عمل میں لائی تھی لیکن پونہ ایکٹ (1932) کے بعد گاندھی جی سے متعلق اس کے موقف میں تبدیلی آئی کیونکہ پونہ ایکٹ کے بعد گاندھی نے چھوت چھات کے خاتمہ کیلئے خود کو پوری طرح وقف کردیا۔ گاندھی جی اس وقت نہ صرف دلتوں کے ساتھ مساوات کیلئے جدوجہد کررہے تھے بلکہ وہ مندروں میں دلتوں کے داخلے اور ان کے ساتھ کھانے کیلئے بھی جدوجہد کررہے تھے۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ ہر شعبہ میں دلتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، انہیں اچھوت سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو کھانے کے دوران شامل بھی نہیں کیا جاتا۔
گاندھی نے ( ماقبل پونہ معاہدہ ) جو مرن ورت رکھا تھا اس نے ملک کو دہلا کر رکھ دیاجس کے نتیجہ میں ہندو سماج کا ایک بڑا حصہ چھوت چھات اور امتیاز پر مبنی ذات پات کے نظام پر عمل کے خوفناک روایات کے بارے میں بڑی گہرائی اور گیرائی سے سوچنا شروع کردیا۔ گاندھی جی کے مرن ورت کے ملک پر جو اثرات مرتب ہوئے اکشے مکل نے اس پر بہتر انداز میں روشنی ڈالی۔اکشے مکل ایک ادیب و صحافی ہیں جنہوں نے گیتا پریس پر لکھی گئیں کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ” GITA PRESS AND THE MAILING OF HINDU INDIA” جس میں انہوں لکھا ’’ پدماجا نائیڈو نے اسے تنقیہ نفس کیا جو ہندواِزم میں صدیوں سے جاری کرپشن کی صفائی کرے گا۔ رابندر ناتھ ٹیگور جنہوں نے گاندھی کے مرن ورت کی اطلاع پاتے ہی ان ( گاندھی ) سے ملاقات کیلئے تک پہنچ گئے تھے۔ گاندھی کی اس کوشش اور اس کے مرتب اثرات کو ’’ عجوبہ ‘‘ سے تعبیر کیا۔
گیتا پریس جو کتابیں شائع کرتا ہے وہ گیتا، رامائن بھگوت، ویداس ، وشنو پورن و دیگر مذہبی کتابیں ہی کیوں نہ ہوں بہت ہی سستی قیمت پر سماج کے وسیع تر طبقات کیلئے قابل رسائی بنائی گئیں جس کا مقصد دراصل غیر مقیم ہندوستانیوں کو بھی یہ مذہبی کتابیں فراہم کرنا تھا۔ انگریزی کے بشمول کئی ہندوستانی زبانوں میں گیتا پریس کی کتابیں منظرِ عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ گیتا پریس کی توجہ خواتین کی مساوات کی مخالفت پر بھی تھی۔ گیتا پریس نے اس عنوان یا موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ان میں سے ہنومان پودار کی ’ ناری شکشا‘ ( خواتین کی تعلیم ) ، سوامی رام سکھداس کی ’ گرہست میں کیسے رہیں‘ ’ اِستریوں کیلئے کرتویہ شکشا ‘ اور ’ ناری دمرم‘ ( خواتین کا فرض) جیسی چند ایک کتابیں شامل ہیں۔ جئے دیال گوئند کی طرف سے میگزین ’کلیان‘ میں خصوصی شماروں کے علاوہ مذکورہ کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت کی گئی ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان کتابوں کی تعلیمات سماجی طور پر رجعت پسند اور دستور ہند کے اقدار کے خلاف ہیں۔ سوامی رام سکھداس کی کتاب بیوی کو زدوکوب کرنے کی تائید کرتی ہے جو گذشتہ زندگی کے گناہوں پر قابو پانے کا ایک طریقہ بتاتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سوامی جی اپنی کتاب میں عصمت ریزی کا شکار ایک خاتون اور اس کے شوہر کو مشورہ دیتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو اس عورت کیلئے بہتر ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرے اور اگر اس کے شوہر کو بھی اپنی بیوی کی عصمت ریزی کا علم ہوجائے تو وہ بھی خاموش رہے کیونکہ دونوں کیلئے خاموش رہنا ہی فائدہ مند ہے۔
بیوہ کی دوبارہ شادی کی مخالفت : … سوامی جی کی کتاب میں بیواؤں کی شادی کے خلاف مشورے دیئے گئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’ جب ایک مرتبہ کسی لڑکی کو اس کے والدین چیریٹی کے طور پر شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں تو وہ کنواری نہیں رہتی تو پھر وہ کسی اور کو خیرات کیسے دے سکتی ہے؟ اس کی دوبارہ شادی کرنا درندگی اور حیوانیت ہے‘‘۔
جون1948 میں گیتا پریس کے میگزین ’ کلیان‘ میں لکھا ہے کہ غیر شادی شدہ خواتین کی کثرت، اِسقاط حمل کے بے شمار واقعات، طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دراصل ہوٹلوں اور دکانات میں کام کرنے والی خواتین ان کی عزت اور پاکیزگی کو مکمل طور پر نظرانداز کررہی ہے جو ہمیں بتارہی ہے کہ مغربی تہذیب عورتوں پر لعنت ہے۔
گھروں اور معاشرہ میں ہندوستانی خواتین کیلئے سَنتوں اور باباؤں نے جو نظام بنایا تھا وہ ان کے علم سے نواز تھا۔ جیسے ہی ہندوکوڈ بل کا مسودہ گیتا پریس میں تیار ہونا شروع ہوا، اس کے بانیوں نے یہ کہہ کر زیرِ بحث دفعات کی شدید مخالفت کی کہ یہ مذہبی کتابوں اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر جو اس وقت وزیر قانون تھے ان لوگوں کی تنقید کا اصل نشانہ تھے کیونکہ ’ کلیان ‘ نے اچھوتوں کیلئے برابری کا مطالبہ کرنے پر امبیڈکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ہندوکوڈ بل کی مخالفت میں شائع مضمون میں امبیڈکر کے خلاف انتہائی توہین آمیز اور ذات پات پر مبنی تبصرے کئے ہیں۔ اب تک ہندوعوام ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لے رہے تھے لیکن اب اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ امبیڈکرکا پیش کردہ ہندو کوڈ بل ہندودھرم کو تباہ کرنے کی ان کی سازش کا سب سے بڑااور اہم حصہ ہے اور یہ انتہائی توہین اور شرم کی بات ہے کہ ہندو دھرم پر ایک بدنما داغ ہے اگر امبیڈکر جیسا شخص ان کا وزیر قانون برقرار رہتا ہے۔1948 میں گاندھی کے قتل میں گیتا پریس کے بانیوں کا مشکوک کردار ان کی گرفتاریوں کا باعث بنا۔ اس وقت ممتاز صنعت کار گھن شیام داس برلا نے جو مہاتما گاندھی سے بہت قربت رکھتے تھے ببانگ دہل کہا تھا کہ گاندھی سناتھن ہندودھرم پر چل رہے تھے تب گیتا پریس کے بانیان SATANIC ہندو دھرما کو فروغ دے رہے تھے۔ گیتا پریس وہ تنظیم ہے جو بابری مسجد میں رام للا کی مورتیاں بٹھانے کی سازش، تحفظ گاؤ، رام مندر تحریک کا حصہ تھی اور اس نے اپنے قارئین سے کہا تھا کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دیں۔ گیتا پریس کے ذریعہ برہمنی اقدار کو فروغ دیا گیا، ان کے اور گاندھی کے ہندواِزم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔