اسٹانڈنگ کونسلس اور لیگل آفیسرس کی تعداد میں اضافہ ضروری، کاؤنٹرس کی تیاری میں تاخیر
حیدرآباد ۔ 14 ۔ جنوری (سیاست نیوز) اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں حکومت اور وقف بورڈ کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عدالتوں میں مقدمات کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لینے تیار نہیں۔ حالیہ عرصہ میں وقف بورڈ کو بعض اہم جائیدوں کے سلسلہ میں ہائی کورٹ میں کانامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گٹلہ بیگم پیٹ کی 90 ایکر سے زائد اوقافی اراضی کے سلسلہ میں ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے قابضین کے حق میں فیصلہ سنایا ۔ مقبرہ روشن الدولہ کی اراضی کے سلسلہ میں وقف بورڈ کے خلاف حکم التواء جاری کیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اہم مقدمات میں وقف بورڈ کی پیروی ہائی کورٹ میں برائے نام دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجہ میں غیر مجاز قابضین کے حق میں فیصلے آرہے ہیں۔ جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں صرف دعوے کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ عدالتوں میں موثر پیروی کو یقینی بنانا پڑے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ ، وقف ٹریبونل اور تحت کی عدالتوں میں 2000 سے زائد وقف مقدمات زیر التواء ہے۔ ان مقدمات کی موثر پیروی کیلئے بورڈ کے پاس قابل وکلاء کی کمی ہے۔ ہائی کورٹ میں وقف بورڈ کے اسٹانڈنگ کونسلس کی تعداد صرف دو ہے۔ حالیہ عرصہ میں بعض شکایتوں پر ایک اسٹانڈنگ کونسل کی خدمات ختم کردی گئیں جس کے بعد سے صرف دو اسٹانڈنگ کونسل برقرار ہے۔ وقف ٹریبونل میں بورڈ کی نمائندگی کیلئے چار وکلاء موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اہم مقدمات کے سلسلہ میں سینئر کونسلس کی خدمات حاصل کی جارہی ہے جس کے لئے ایک پیانل تیار کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینئر کونسلس میں بعض ایسے ہیں جو بیک وقت وقف بورڈ اور قابضین دونوں کی الگ الگ مقدمات میں پیروی کر رہے ہیں۔ گٹلہ بیگم پیٹ مقدمہ میں جس سینئر کونسل نے قابضین کی طرف سے پیروی کی تھی، وہ مقبرہ روشن الدولہ مقدمہ میں وقف بورڈ کے وکیل ہیں۔ اور بھی دیگر جائیدادوں کے مقدمات اسی سینئر کونسل کو دیئے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ وکلاء کو صرف بورڈ کی نمائندگی کیلئے پابند نہیں کرسکتا ۔ لہذا وہ بعض مقدمات میں بورڈ کے خلاف پیروی کر رہے ہیں۔ ہائی کورٹ میں اسٹانڈنگ کونسلس کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ ایسے وکلاء کو اسٹانڈنگ کونسلس مقرر کیا جانا چاہئے جنہیں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں دلچسپی اور جذبہ رکھتے ہوں۔ وقف بورڈ میں لا ڈپارٹمنٹ کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مقدمات میں کامیابی کا دارومدار وکلاء کو لاء ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دی جانے والی رپورٹ اور دستاویزات پر ہے۔ کاؤنٹرس کی تیاری اور وقف جائیداد کے حق میں موجود دستاویزات کی پیشکشی بورڈ کے لیگل سیکشن کی ذمہ داری ہے لیکن فی الوقت یہ سیکشن ماہرین کی کمی کا شکار ہے۔ تین لاء آفیسرس خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں ایک کو گریٹر حیدرآباد اور باقی دو کو اضلاع کی ذمہ داری دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مزید 3 تا 4 لیگل آفیسرس کے تقرر کے لئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ وکلاء کو اکثر یہ شکایت رہی کہ بورڈ کی جانب سے درکار دستاویزات اور مواد بروقت سربراہ نہیں کیا جاتا جس کے نتیجہ میں مقدمات کے فیصلے قابضین کے حق میں ہورہے ہیں۔ وقف امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اسٹانڈنگ کونسلس اور لیگل آفیسرس کے انتخاب میں اس بات کو ترجیح دی جائے کہ انہیں اقلیتوں سے ہمدردی اور اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں سنجیدگی ہو۔ صرف تنخواہ یا پھر فیس کے لئے کام کرنے والے افراد بعض معاملات میں مخالف پارٹی سے سمجھوتہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح کی کئی شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں مخالف پارٹی کو بورڈ کے دستاویزات حوالے کردیئے گئے ۔ اسی دوران صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے کہا کہ بورڈ کے اجلاس میں اسٹانڈنگ کونسلس کی تعداد میں اضافہ کی منظوری حاصل کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ لیگل سیکشن کو بھی مستحکم کیا جائے گا ۔ عدالتوں میں مقدمات کی صورتحال کے بارے میں روزانہ وکلاء سے رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دن لیگل آفیسرس عدالت میں موجود رہیں گے تاکہ اسٹانڈنگ کونسل کی مدد کی جاسکے ۔