ہاتھرس واقعہ میں عصمت ریزی نہیں ہوئی

   

جنسی حملہ کا ثبوت نہیں ملا، صرف جسمانی اذیت دی گئی: فارنسک رپورٹ

لکھنؤ : علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج نے ڈپارٹمنٹ آف فارنسک میڈیسن نے یہ سرٹیفکٹ دیا ہے کہ ہاتھرس واقعہ میں 19 سالہ دلت لڑکی کی عصمت ریزی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ دلت لڑکی کی عصمت ریزی کے متعلق جانچ میں کوئی شواہد دستیاب نہیں ہوئے۔ اِس سرٹیفکٹ کو اترپردیش حکومت نے اپنے حلفنامہ کے ساتھ سپریم کورٹ میں داخل کیا ہے۔ سرٹیفکٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکی پر جنسی حملہ کی کوئی علامتیں نہیں پائی گئیں۔ البتہ جسمانی حملے کے ثبوت ملے ہیں مثلاً گردن اور پیٹھ پر زخموں کے نشان تھے۔ واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے پہلے بھی کہا تھا کہ لڑکی کی عصمت ریزی نہیں کی گئی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عصمت ریزی کی توثیق نہیں ہوئی جبکہ متاثرہ لڑکی کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ اِن کی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ ملزمین کے ارکان خاندان بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئی عصمت ریزی نہیں ہوئی۔ دراصل لڑکی کو خود اُس کے بھائیوں نے مارا پیٹا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوئی تھی۔ اِسی دوران نربھئے کیس کے ملزمین کی وکالت کرنے والے وکیل اے پی سنگھ نے ہاتھرس کیس کے چار ملزمین کی بھی مدافعت کی ہے۔ 2012 ء اجتماعی عصمت ریزی میں سزا پانے والوں کا اُنھوں نے دفاع کیا تھا۔ اب اُنھوں نے ہاتھرس کیس میں 4 ملزمین کی پیروی کریں گے۔ وکیل اے پی سنگھ کی خدمات اکھل بھارتیہ کشتریہ مہا سبھا نے حاصل کی ہے۔ صدر راجہ مہندرا سنگھ نے کہاکہ اِن کے ادارے نے اے پی سنگھ کی فیس ادا کرنے کے لئے ایک بڑی رقم جمع کی ہے۔