ہاتھ سے ہاتھ کی زنجیر بناکر نکلو

   

پارلیمنٹ سیشن … غرور کا سر نیچا
بابری مسجد سانحہ … مودی نے زخم کریدنے کی کوشش کی

رشیدالدین
اقتدار کا غرور اور جیت کا اہنکار کیا ہوتا ہے اس کی زندہ مثال نریندر مودی اور ان کی حکومت ہے۔ نشہ چاہے اقتدار کا ہو یا دولت کا انسان میں اچھے اور برے کی تمیز کو ختم کردیتا ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ کچھ بھی کریں درست ہے اور دنیا کو اسے تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔ غرور اور اہنکار کے تحت کئے گئے فیصلے اکثر و بیشتر پشیمانی ، شرمندگی اور جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں ۔ بہار کی کامیابی نے مودی حکومت کو اندھا کردیا لیکن پارلیمنٹ سیشن کے آ غاز پر حکومت کو اپوزیشن کے آگے جھکنا پڑا جو غرور کی ناکامی کا ثبوت ہے ۔ موبائیل فون میں سنچار ساتھی ایپ کو اپ لوڈ کرتے ہوئے ہر شخص کی جاسوسی کے منصوبہ پر حکومت کو یو ٹرن لینا پڑا۔ دوسرے یہ کہ فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی SIR پر مباحث سے اتفاق کرنا پڑا جوکہ اپوزیشن کی نظر میں ووٹ چوری کا نیا طریقہ ہے ۔ پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن آغاز سے ہی توقع کے مطابق ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ بی جے پی اور حلیف جماعتیں یہ تصور کر رہی تھیں کہ بہار کی شکست کے بعد اپوزیشن کے حوصلے پست ہوں گے لیکن ووٹ چوری اور ووٹ خریدی سے حاصل کردہ کامیابی نے اپوزیشن میں جدوجہد کے جذبہ کو پروان چڑھانے کا کام کیا ہے۔ کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس نے عوامی مسائل پر مودی حکومت کو گھیرنے کی تیاری کرلی ہے۔ ملک میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے ۔ الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ ، سی بی آئی ، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور انکم ٹیکس کا استعمال کیا گیا لیکن مقدمات نے اپوزیشن کو انتقامی سیاست کی آگ میں تپنے کے بعد کندن بنادیا ہے ۔ مودی حکومت نے اپوزیشن اور مخالفین کے خلاف آخری حربے کے طور پر موبائیل فون کے ذریعہ نگرانی اور جاسوسی کا منصوبہ تیار کیا ۔ سابق میں جس طرح پیگاسیس کے ذریعہ راہول گاندھی ، اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور دوسروں کی جاسوسی کا انکشاف ہوا تھا، ٹھیک اسی طرح سرکاری جاسوسی کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ مودی حکومت نے موبائیل فون تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو ڈکٹیٹر کی طرح پابند کیا کہ موبائیل فون کی تیاری کے وقت حکومت کا سنچار ساتھی ایپ لازمی طور پر شامل کریں۔ صارفین کو سنچار ساتھی ایپ ڈیلیٹ کرنے کا کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ مودی حکومت موبائیل فون کے ذریعہ ہر شہری کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا چاہتی تھی۔ حالانکہ دستور ہند نے ہر شہری کو نجی زندگی کا حق دیا ہے جس میں حکومت بھی مداخلت نہیں کرسکتی۔ ایپل ، گوگل اور دوسری کمپنیوں نے حکومت کے تغلقی آرڈر کو ماننے سے انکار کردیا۔ ہندوستان کی جگ ہنسائی ہونے لگی۔ اپوزیشن اور انسانی حقوق کے جہدکاروں نے آواز بلند کی جس کے بعد مودی حکومت کو یو ٹرن لینا پڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی خانگی کمپنی اپنے فون میں کسی سرکاری ایپ کو شامل کردے۔ ہندوستان جمہوری ملک ہے ، روس یا شمالی کوریا نہیں جہاں حکومت عوام کی جاسوسی کرے۔ جگ ہنسائی کے بعد مودی حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا اور اپنی ساکھ بچانے کیلئے PMO کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا اچانک تبادلہ کردیا گیا جو مودی کے خصوصی صلاح کار کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ پارلیمنٹ سیشن کے پہلے دن نریندر مودی جو ایوان میں اپوزیشن کا سامنا کرنے سے ہمیشہ گھبراتے ہیں ، ایوان کے باہر اپوزیشن کو نصیحت دینے پہنچ گئے۔ نریندر مودی نے اپنی روایتی ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ذریعہ اپوزیشن کو ڈرامہ بازی ترک کرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی مفت میں صلاح دے دی ۔ تلگو زبان کی کہاوت ہے کہ جب شیطان ہی وید پڑھنے لگ جائے تو پھر کیا ہو۔ ٹھیک اسی طرح گزشتہ 12 برسوں سے جو کام خود کرتے آئے ، اس سے اپوزیشن کو روکنا چاہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عوامی مسائل پیش کرنا ڈرامہ بازی نہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص جس چیز کا عادی ہوتا ہے ، وہ دوسروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ ہندوستان ہی نہیں دنیا جانتی ہے کہ ڈرامہ بازی کی انتہا مودی پر ختم ہوتی ہے۔ گزشتہ 12 برسوں میں ڈرامہ بازی کے تمام ریکارڈ مودی نے توڑ دیئے اور وہ اپنی اداکاری کی صلاحیت پر آسکر ، فلم فیر اور لائیف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے نامینیٹ ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار اگر حیات ہوتے تو نریندر مودی کو دیکھ کر اپنی اداکاری بھول جاتے۔ بالی ووڈ کے شہنشاہ کہے جانے والے امیتابھ بچن نے بھی شائد اسی وجہ سے فلموں میں اداکاری بند کردی اور خود کو ٹی وی شو اور کمرشیل ایڈس تک محدود کردیا۔ بی جے پی جب اپوزیشن میں تھی ، ارون جیٹلی اور سشما سوراج نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں رکاوٹ کو جمہوری عمل قرار دیا تھا۔ نریندر مودی آج اسی جمہوری عمل کو ڈرامہ بازی قرار دے رہے ہیں۔ SIR کے چلتے ذہنی دباؤ کے تحت کئی ریاستوں میں 40 سے زائد بوتھ لیول آفیسرس (BLO) نے خودکشی کرلی ۔ کیا یہ بھی ایک ڈرامہ ہے؟ بی ایل او کی موت کے بارے میں سوال کرنا ڈرامہ بازی کیسے ہوگا۔ نریندر مودی نے صحافیوں کو موسم کا مزہ لینے کا مشورہ دیا۔ دہلی کی فضاء زہر آلود ہے اور مودی اسی موسم کا مزہ لینے کی بات کر رہے ہیں۔ فضائی آلودگی سے دہلی کے عوام بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور مودی کو مزہ آرہا ہے ۔ مودی کے گھر اور دفتر میں ایر پیوریفائر نصب ہیں لیکن عام آدمی زہر کو اپنے جسم میں داخل کرنے پر مجبور ہے۔ نریندر مودی کو زہر آلود فضاء میں موسم کا مزہ لینے کی فکر ہے ۔ مزہ تو چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار بھی لے رہے ہیں جنہوں نے بی ایل اوز کی موت پر ہمدردی اور تعز یت کے دو لفظ نہیں کہے لیکن ذہنی تناؤ سے نکلنے کے لئے BLO’s مرد و خواتین کے ڈانس کے ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ جن کے گھر والوں نے خودکشی سے جان دے دی ، ان کا غم ابھی تازہ ہے لیکن گیانیش کمار ڈانس کے ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے ہندوستانی تہذیب کو پامال کر رہے ہیں۔ مرنے والے تو مرگئے آؤ چلو ڈانس کریں کے تحت چیف الیکشن کمشنر بھی موسم کا مزہ لے رہے ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کی جانچ کے لئے اپوزیشن نے جب پولنگ بوتھس کے سی سی ٹی وی فوٹیج کا مطالبہ کیا تھا تو گیانیش کمار نے کہا کہ ماں ، بیٹی اور بہو کے ویڈیو کیسے وائرل کرسکتے ہیں لیکن آج بے شرمی سے ماں بہنوں کے ڈانس کے ویڈیوز گیانیش کمار ٹوئیٹ کر رہے ہیں۔ ویڈیوز ٹوئیٹ کرتے وقت انہیں ماں، بہن ، بیٹی اور بہو کی عزت کا خیال کیوں نہیں آیا؟
بابری مسجد سانحہ کے 33 سال مکمل ہوگئے اور ہر سال مسلمان رسمی طور پر یوم سیاہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ بابری مسجد کا زخم ابھی تازہ ہے اور تاقیامت تازہ ہی رہے گا کیونکہ سجدہ گاہ کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آڑ میں بت خانہ میں تبدیل کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے مسجد کے حق میں دلائل اور ثبوت کی موجودگی کے باوجود خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اراضی کو رام مندر کی تعمیر کیلئے حوالے کردیا تھا۔ مسلمان مسجد کی اراضی سے محروم ہوگئے لیکن انہوں نے صبر کا دامن تھامے رکھا پھر بھی وقفہ وقفہ سے بابری مسجد کے مسئلہ پر مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بابری سانحہ کی برسی سے قبل 25 نومبر کو ایودھیا میں رام مندر کا دورہ کرتے ہوئے زعفرانی پرچم لہرانے کی رسم ادا کی۔ وزیراعظم نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کی موجودگی میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ ہندوتوا نظریات اور ہندو راشٹر کی تشکیل کی سمت پیشرفت کا اشارہ کر رہے تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 6 ڈسمبر سے عین قبل وزیراعظم کو ایودھیا کے دورہ کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مندر کی تعمیر کی تکمیل کا بہانہ کرتے ہوئے پروگرام طئے کیا گیا تاکہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا جائے۔ زعفرانی پرچم لہرانے کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ ملک کی دوسری بڑی تاریخی مساجد پر ہندوتوا کی دعویداری کو خاموشی سے قبول کرلیں۔ نریندر مودی کی مقبولیت میں جب کبھی کمی واقع ہوتی ہے ، وہ ہندوتوا ایجنڈہ کا سہارا لیتے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے لمحہ فکر ہیں۔ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی نے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کے سلسلہ میں جو حق بیانی سے کام لیا ہے ، اسے گودی میڈیا اور ہندوتوا طاقتیں تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں۔ دونوں قائدین نے اپنے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ مسلمانوں کو مظالم پر آہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان ہر شعبہ میں نظر انداز کئے جارہے ہیں؟ اگر اسی حقیقت کو جمعیۃ العلماء کے قائدین نے بیان کیا تو اس پر اعتراض کیوں۔ وقت آچکا ہے کہ مسلمان اپنی صفیں درست کریں اور قوت مزاحمت میں اضافہ کریں تاکہ مستقبل کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔ اپوزیشن اور مسلمان دونوں کیلئے عمران پرتاپ گڑھی کا یہ شعر کسی مشورہ سے کم نہیں ؎
ہاتھ سے ہاتھ کی زنجیر بناکر نکلو
ورنہ دھاگے کی طرح توڑ دیئے جاؤگے