ہار ہوتی ہے جب مان لیا جاتا ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
یہ 19؍ فروری 2020 کی بات ہے بہار کے ضلع ارریا سے تعلق رکھنے والے محمد اسرافیل نے اچھا کمانے کے لیے اپنے گائوں کو چھوڑ کر اترپردیش کے ضلع وارانسی کا رخ کیا۔ وارانسی جانے کے دو دن بعد ہی اسرافیل کو ماربل کی ایک دوکان پر نوکری مل گئی۔ وہ بہت خوش تھا کہ چلو گائوں میں جو پریشانی تھی اب وہ دور ہوجائے گی اور وہ بھی کماکر اپنی بیوی بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرسکے گا۔ اسرافیل کو کام پر لگے صرف تین ہی دن ہوئے تھے۔ 25 ؍ فروری 2020کو کام کرنے کے دوران ایک پتھر اسرافیل کے اوپر ہی گر گیا جس کے نتیجے میں اس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی۔ گائوں سے باہر آکر نوکری ملنے کی جو خوشی تھی اب وہ ایک آزمائش بن گئی تھی۔ گھر پر اسرافیل کی بیوی صغراء کو جب اپنے شوہر کے ساتھ پیش آئے حادثہ کے متعلق پتہ چلا تو وہ فوری اپنے 11 سالہ لڑکے کو ساتھ لے کر وارانسی کے لیے نکل پڑی۔ ماں بیٹا جب تک وارانسی پہنچتے تب تک اسرافیل دواخانہ لے جایا گیا اور پائوں پر پلاسٹر چڑھا دیا گیا تھا۔ اسرافیل تو اب چل پھر نہیں سکتا تھا۔ صغراء اپنے شوہر کی خدمت کرنے لگی اور اس کو انتظار تھا کہ اجنبی شہر کے بجائے وہ اپنے شوہر کو گائوں لے جائے۔ اس کا خیال کرے۔ پھر اسرافیل نے بھی سونچا کہ پلاسٹر اتر جائے تو گھر جائیں گے لیکن حادثہ کے ایک مہینے بعد جب پلاسٹر اتارا گیا تب تک ملک بھر میں لاک ڈائون لگ چکا تھا۔ اسرافیل نے ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کام ہی نہیں تھا تو پھر وارانسی میں ٹھہر کر فائدہ کیا۔ راشن پانی کا خرچہ بھی تھا علاج تو (دوکان جہاں وہ کام کرنا شروع کیا تھا) کے مالک نے مکمل طور پر اپنی طرف سے کروایا تھا۔ لیکن محمد اسرافیل ان کی بیوی صغراء اور ان کے بچے تبارک کو وارانسی سے واپس جانے کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔ ٹرین اور بسیں تو بند تھی۔ ایسے میں انہیں خیال آیا کہ رکشہ کے ذریعہ ہی واپس ارریا چلتے ہیں۔
قارئین کرام وارانسی سے ارریا واپس جانے کے لیے تقریباً 600 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرنا تھا اور اتنا طویل فاصلہ طئے کرنے کے لیے اسرافیل نے رکشہ کی سواری منتخب کی۔ اب سب سے اہم کام اس رکشہ کو چلانے کا تھا۔ چونکہ پائوں کے ٹوٹ جانے کے سبب اسرافیل خود تو رکشہ چلا نہیں سکتا تھا اور صغراء ایک ضعیف خاتون تھی۔ ایسے میں 11 سال کے تبارک نے اپنے بوڑھے مانباپ کو رکشہ میں بٹھاکر گائوں واپس لے جانے کا فیصلہ کیا۔جب 9 دنوں کے طویل سفر بعد 11 سالہ تبارک رکشتہ چلاکر اپنے بوڑھے اور بیمار مانباپ کے ساتھ اپنے گائوں پہنچا تو سب میڈیا والے دنگ رہ گئے۔ جس وقت تبارک رکشہ پر اپنے بوڑھے مانباپ کو بٹھاکر وارانسی سے نکلا تھا تو راستہ میں کسی نے اس کا ویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر پوسٹ کردیا تھا جو بہت تیزی سے وائرل ہوگیا۔

تبارک نے اپنے بوڑھے والدین کو مایوس نہیں کیا تھا۔ عمر اور قد میں تو چھوٹا تھا لیکن اس کے حوصلے بڑے تھے۔ میڈیا کے نمائندوں نے جب اس سے پوچھا کہ تمہیں اتنا طویل سفر طئے کرنے کے لیے اور مانباپ کو رکشہ میں بٹھاکر چلانے کی ہمت کہاں سے آئی تو تبارک نے بلاتاخیر کے فوری جواب دیا کہ میرے والدین میرے ساتھ تھے تو یہی لوگ میری ہمت تھے اور میں جب سڑک پر نکلا تو میں نے دیکھا بہت سارے لوگ تو پیدل ہی جارہے ہیں اور میرے پاس تو رکشہ تھا۔ یہ سونچ کر ہی میری ہمت بڑھ گئی۔

مسلسل نو دنوں تک رکشہ چلانے کے بعد بالآخر تبارک اپنے مانباپ کے ساتھ ارریا میں اپنے گائوں کو پہنچ گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم پھر سے شہر جانا چاہوگے تو میڈیا کے مائک کے سامنے ہاتھ باندھے 11 سالہ تبارک نے جواب دیا ’’ان شاء اللہ ضرور لیکن لاک ڈائون کھلنے کے بعد‘‘ ۔تبارک کی ماں صغراء سے جب پوچھا گیا کہ اپنے بچے کے ساتھ رکشہ میں اتنا طویل سفر طئے کرتے ہوئے انہیں کیسا لگا تو صغراء نے کہا کہ ہمارا لڑکا محنتی ہے۔ اس کی محنت ہمارے کام آئی۔ راستہ میں جب جب سڑک کی اونچائی ہوتی تھی تو ہم رکشہ سے اتر کر اس کو دھکیل کر اپنے بچے کی ہمت بڑھاتے تھے۔قارئین 11 سال کے تبارک کے علاوہ 15 سال کی جیوتی کی جانب سے سائیکل پر اپنے بیمار باپ کو گرو گرام، ہریانہ سے دربھنگہ تک لے جانے کی خبر بھی میڈیا میں خوب عام ہوئی۔موہن پاسوان کا تعلق بہار کے علاقے دربھنگہ سے تھا اور وہ بھی دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے ہریانہ کے گروگرام علاقے میں آٹو چلاکر گذارا کرتا تھا۔ ایک دن موہن پاسوان حادثہ کا شکار ہوا اور آٹو چلانے کے قابل نہ رہا۔ بیماری کی اس حالت میں دربھنگہ اسے موہن کی 15 سالہ بیٹی جیوتی کماری اپنے باپ کی تیمارداری کے لیے گروگرام پہنچتی ہے اور پھر لاک ڈائون لاگو ہوجانے سے دونوں باپ بیٹی کے لیے دربھنگہ میں اپنے گائوں کو واپس جانے کے لیے بظاہر کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ایسے میں اخبار دی ٹریبیون میں 20؍ مئی کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گروگرام کے جس گھر میں موہن پاسوان رہتا تھا اس کا مالک کرایہ کی ادائیگی کے لیے مسلسل دبائو ڈال رہا تھا۔ یہاں تک کہ موہن پاسوان نے اپنی دوائیں بھی خریدنی بند کردی تھی تاکہ دو وقت کی روٹی کھاسکے۔ لیکن لاک ڈائون بڑھتا ہی جارہا تھا اور مکاندار کا دبائو بھی بڑھ رہا تھا۔ ایسے حالات کو دیکھ کر جیوتی کماری نے اپنے باپ سے کہا کہ انہیں اب گروگرام چھوڑ کر اپنے گھر دربھنگہ واپس چلے جانا چاہیے۔ لیکن جب بس اور ٹرین دونوں بند تھی تو جیوتی نے اپنے باپ سے مشورہ کیا کہ اگر کہیں سے سائیکل مل جاتی ہے تو وہ سائیکل پر ہی اپنے باپ کو گھر لے جانے تیار ہے۔ موہن پاسوان نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ یہ کوئی10، 15 کیلومیٹر یا 100 ، 50 کیلومیٹر کا معاملہ نہیں ہے لیکن جیوتی کماری نے اپنے باپ کو یقین دلایا کہ وہ طویل سفر سے گھبرانے والی نہیں ہے۔

بالآخر موہن پاسوان نے گھر واپس جانے اپنے بیاگ تیار کرلیا اور باقی سب سامان بیچ کر ایک سائیکل خرید لی۔15 سال کی جیوتی کماری اپنے باپ موہن پاسوان کو سائیکل کے پچھلے اسٹانڈ پر بٹھاکر سائیکل چلانا شروع کرتی ہے۔خبر رساں ادارے PTI کے مطابق جیوتی نے بتلایا کہ یہ تھکا دینے والا سفر تھا۔ راستہ میں کہیں پر کھانا بٹتا ہوا دکھائی دیتا تو ہم وہاں رک جاتے۔ اس کے علاوہ بعض سڑکوں پر جب لاری ڈرائیور ہمیں دیکھتے تھے وہ بھی ہمدردی میں جہاں تک ان کا راستہ ہوتا ہمیں لفٹ دے دیتے۔ دن میں 30 تا 40 کیلو میٹر راستہ طئے کرتے ہوئے بیٹی سائیکل کے پینڈل چلاتی جاتی اور معذور بیمار باپ پیچھے بیٹھا اپنی بیٹی کے لیے دعا کرتا رہتا۔ تقریباً آٹھ دن مسلسل سفر کرنے کے بعد جیوتی کماری بالآخر کامیابی کے ساتھ بہار، دربھنگہ میں اپنے گائوں پہنچ گئی، جہاں ان دونوں کو کورنٹائن میں بھیج دیا گیا۔

قارئین ایسا شائد پہلی مرتبہ ہوا کہ اچھے اچھے صحافیوں کو یہ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ گیارہ سال کا تبارک ہو یا 15 سال کی جیوتی کماری ان سے کیا سوال کریں۔ میں نے Mojo کی نامور صحافی برکھا دت کو بھی جیوتی کماری کے سامنے پریشان دیکھا کہ آخر اس لڑکی سے کیا سوال کریں۔ برکھا دت نے جیوتی کماری سے فون پر 6 منٹ سے زیادہ انٹرویو کیا اور اس انٹرویو کو دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ برکھا دت کے بے شمار سوال تھے لیکن جیوتی کماری کا ہر جواب برکھا دت کو لاجواب کردیتا تھا۔قارئین تبارک اور جیوتی کماری نے وہ کام کردکھایا کہ بڑے بڑے صحافی بھی اپنے آپ کو بونا محسوس کر رہے تھے۔لیکن ان کم عمر بچوں نے زندگی کے بہت سارے سبق ہمارے لیے پیش کیے ہیں کیا کوئی ہے جو ان سے سیکھے؟
تبارک نے صرف 4 کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی لیکن غریبی اور حالات کی پریشانیوں نے اس کے چہرہ پر بل نہیں ڈالے وہ کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ پھر سے اپنے والد کے ساتھ کمانے جائوں گا۔ جیوتی نے حالات کا رونا نہیں رویا کہ کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو مجھے کیوں اپنے پاس بلایا۔ اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس میں 20؍ مئی کو شائع رپورٹ کے مطابق واپسی میں سائیکل چلاتے دو دن ایسے بھی آئے جب جیوتی خود بھوکی رہی لیکن اپنے بیمار باپ کو کھانے کا انتظام کیا۔ جیوتی نے کہا کہ 1200 کیلو میٹر سفر سائیکل پر طئے کرنے کی ہمت اس کے والد سے ہی ملی۔
کیا ہم نے کبھی سونچا ہے ہمارے بچے ہم سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ ایک شناسا نے شکایت کی کہ لاک ڈائون سے پیداء شدہ مسائل کیا کم تھے کہ اب ان کے بچے کی فرمائش ہے کہ اس کو مہنگا والا فون دلایا جائے تاکہ وہ
Slow motion
والی ویڈیو بناسکے۔ میں کس کو قصوروار مانوں مجھے تو مانباپ ہی کٹھرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے ہمارے بچے محنت نہیں کرتے ہیں تو یہ آر ایس ایس کی سازش ہے یا یہودیوں کی چال سونچئے گا اور دعا کیجیے گا کہ اللہ رب العزت ہمارے نوجوانوں کو دنیا و آخرت میں سرخروئی عطا فرمائے آمین۔بقول شکیل اعظمی
ہار ہوتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]