ہانگ کانگ لائبریریوں سے جمہوری نظریات کی کتابیں غائب

   

ہانگ کانگ: دنیا کے ایک اہم مالیاتی مرکز ہانگ کانگ میں سیکیورٹی کے ایک آمرانہ قانون کے نفاذ کے بعد ممتاز جمہوریت پسند مصنفین کی کتابیں شہر کی لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔جن مصنفین کی کتابیں اب دستیاب نہیں رہیں، ان میں شہر کے ایک ممتاز سرگرم کارکن جوشوا وانگ اور ایک معروف جمہوریت پسند قانون ساز تانیا چن شامل ہیں۔بیجنگ کی جانب سے منگل کے روز قومی سلامتی کے ایک نئے قانون کے نفاذ کے بعد اس نیم خود مختار شہر کے نظم و نسق کو سن 1997 میں برطانیہ سے چین کو منتقلی کے بعد جس انداز میں چلایا جا رہا تھا، یہ اس میں ایک بنیادی تبدیلی ہے۔ہانگ کانگ میں گزشتہ ایک سال سے جاری جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد چین کے آمریت پسند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے علاقے میں استحکام آئے گا اور اس سے مقامی قانون میں دی گئی آزادیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور ان قوانین کا ہدف ایک بہت چھوٹا گروہ ہو گا۔جب کہ ہانگ کانگ کے زمینی حالات ایک دوسری کہانی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ پولیس ان لوگوں کو پکڑ رہی ہے جو آزادی اور زیادہ خودمختاری کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ اسی طرح کاروباری افراد اپنی دکانوں اور اسٹوروں سے جمہوریت نواز بینر اتار رہے ہیں۔پبلک لائبریری کی ویب سائٹ پر سرچ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہاں سے وانگ، چن اور ہانگ کانگ کے ایک اور اسکالر چن وان کی کم از کم تین تین کتابیں غائب ہو چکی ہیں۔