ہانگ کانگ ۔یکم ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) ہانگ کانگ میں ہفتہ کے روز ہزاروںافراد مظاہروں پر عائد پابندی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی روکاٹوں کو روندتے ہوئے پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر حملہ کیا۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس اور آبی توپوں کا استعمال کیا۔مظاہرین نے پولیس پر پیٹرول بم بھی پھینکے۔تازہ مظاہروں کی کال ہانگ کانگ میں مکمل جمہوریت کے لیے شروع کی جانے والے مہم کیپانچ سال مکمل ہونے پر دی گئی تھی۔پولیس نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں احتجاجی مظاہرین کے متحرک رہنما جوشوا وانگ کو گرفتار کیا تھا لیکن بعد اس انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ جوشوا وانگ نے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج لوگوں کا بنیادی حق ہے۔رواں برس چین کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون سازی کی کوشش کے بعد ہانگ گانک میں ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوئے ہیں جو ہانگ کانگ اور چین کی حکومت کی تمام تر کوششوں کیباوجود تھم نہیں رہے ہیں۔پولیس نے تمام سر کاری عمارتوں کے باہر روکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔مظاہروں میں شامل ایک22سالہ طالبعلم ایرک نے خبر رساں ادارے روئٹر کو بتایا ’ہمیں مظاہرے نہ کرنے کا بتانا ایسا ہی ہے جیسے ہمیں کہا جائے کہ سانس نہ لو۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کے لیے جہدوجہد ہمارا فرض ہے۔ شاید ہم جیت جائیں، شاید ہم ہار جائیں لیکن ہم لڑیں گے۔‘حالیہ مظاہروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا کوئی رہنما نہیں ہے۔ گذشتہ روز پولیس نے عوام سے کہا تھا کہ وہ متشدد مظاہرین سے اپنے تعلق ختم کریں اور لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ مظاہروں میں شریک نہ ہوں۔ہانگ کانگ کی جمہوری تحریک کے رہنما جوشو وانگ نے ضمانت پر رہائی کے بعد بی بی سی سے بات کر تے ہوئے کہا کہ مظاہروں کا انتظام کرنا بنیادی حق ہے اور ہانگ کانگ کے لوگ گلیوں میں اکٹھے ہو کر صدر شی جن پنگ اور چین کو بتا رہے ہیں کہ لوگوں کو آواز سنو۔‘ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن اسے 2047 تک خصوصی آزادیاں حاصل ہیں۔ ہانگ کانگ میں کئی لوگ ہانگ کانگ کو ایک اور چینی شہر بنتے ہوئے دیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔چین نے ہانگ کانگ میں مظاہروں کی مذمت کی ہے۔ہانگ کانگ میں مظاہرین کو خدشہ ہے کہ چین مظاہروں پر قابو پانے کیلئے شاید فوج کا استعمال کرے۔