غضنفر علی خان
عجیب دور ہے صاحب کے اس میں انسان ہونا بے حد دشوار ہوگیا ہے۔ انتہا پسندی اپنی آخری حد کو پار کررہی ہے۔ حالانکہ یہ بات ہر عقیدہ میں کہی گئی ہے کہ تہذیب کی اصلیت اانسان کے احترام میں چھپی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی قدیم اور صدیوں کی تاریخ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ احترام آدم میں ہمارے تمدن کو برقرار رکھنے کی ہمیشہ ضمانت فراہم کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان مختلف تہذیبوں ، زبانوں اور عقائد والا ایک ایسا ملک ہے جس کے وجود پر دنیا تعجب کرتی ہے۔ ’’لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘ ہماری تار یخ کا خلاصہ ہے ۔ اگر آج کچھ لوگ ہندو دھرم کے نام پر کشت و خون کرتے ہیں تو یہ ان کا قصور ہے ملک کا قصور نہیں ہے ۔ ہم ہندوستانی روایات کے علمبردار ہیں اور اس کی علامتوں کو ختم کرنے والی ہر طاقت کے خلاف مقابلے پر ہم ڈٹ کر کھڑے رہیں گے ۔ خود ہندو دھرم ایک متحمل عقیدہ ہے ، اس میں کسی ویدھ ، کسی شاستر میں یہ تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ انسان تو انسان کسی جاندار کی ہلاکت بھی نہیں کی جاسکتی۔ آج اسی دھرم کے آڑ میں ہندو دھرم کے بعض خود ساختہ ترجمانوں نے قتل و غارت گری کو اپنا نصب العین بنایا ہے ۔ یہ صورت حال ہر روز بگڑتی جارہی ہے، منافرت اور مسلم دشمنی ، زہر کی طرح تیزی سے ہمارے مشترکہ سماج میں پھیل چکی ہے ۔ مسلمانوں سے منافرت نے آج کئی شکلیں اختیار کرلی ہے ، اس کی کم از کم دو مثالیں بالکل تازہ واقعات سے دی جاسکتی ہے ۔ ایک غذائی اشیاء بنانے والی کمپنی Zomato (زوماٹو) کو ایک ہندو گاہک نے اس کمپنی کی بھجوائی ہوئی فوڈ پاکٹ کو محض اس لئے واپس کردیا کہ لانے والا مسلمان تھا ، نہ اس غذا میں نقص تھا اورنہ انسانی عقل اس عمل کو درست کرسکتی ہے ۔ غذ ائی اشیاء تیار کرنے والی اس کمپنی نے وضاحت کی کہ غذا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، انتہائی معقول بات ہے ۔ غذائی عادات ہر دور میں ہر علاقہ میں بدلتی رہتی ہیں، کبھی ہمارے شہر خوباں حیدرآباد میں نہاری بہت مقبول تھی ، شہر میں کچھ مخصوص ہوٹلیں تھیں جہاں چیزیں علی الصبح ناشتہ میں فراہم کی جاتی تھیں۔ آپ کے پسندیدہ اور مقبول عام احبار سیاست میں گزشتہ ہفتہ ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اب حیدرآباد میں نہاری ناشتہ میں استعمال کرنے کا رواج کم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ دوسہ ، اٹلی ، پاؤ بھاجی نے جگہ لے لی ہے ۔
یہ دونوں چیزیں نہ صرف ہندو پکوان ہیں بلکہ ہندوستان میں بھی جنوبی ریاستوں میں زیادہ تر استعمال کی جاتی ہیں تو پھر حیدرآبادی عوام نے کیوں ان دونوں پکوانوں کو اپنے پسندیدہ پکوان پر ترجیح دی ہے ۔ یہ معمولی سی بات اگر سمجھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پکوان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، جہاں تک مذکورہ بالا کمپنی کا تعلق ہے ، وہ تجارتی نقطہ نظر سے کام کرتی ہے ۔ غذاؤں کو دین دھرم کے خانوں میں نہیں بانٹتی، محض اس لئے اس گاہک نے غذائی پاکٹ کو لینے سے جس کا وہ آرڈر دے چکا تھا ۔ انکار کرنا انتہائی تنگ نظری اور کم فہمی کی دلیل ہے لیکن یہ ہورہا ہے تنگ نظری مذہبی عصبیت اب غذاؤں میں بھی دیکھی جارہی ہے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ آج ہماری صفوں میں سوچ و بوجھ رکھنے والے انسان کم ہوگئے ہیں۔ وہ لوگ جانے کہاں چلے گئے جو ملک میں بسنے اور پیدا ہونے والی ہر چیز کا نام ہندوستانی دیا کرتے تھے ۔ اب ان لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جو ضروری اشیاء کو بھی ہندو یا مسلمان کے ترازو میں تولنے لگے ہیں ، ایک بات قابل غور ہے کہ جو لوگ ایسی تنگ نظری رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں لائی ہوئی غذا کو بھی لینے سے انکار کردیتے ہیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی نگہبان ہوگا ، ایسی ذہنیت کے لوگ ہمارے سماج و معاشرہ میں موجود ہیں اور اپنا وجود ثابت کرنے کیلئے ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہندو یا مسلمان یا کوئی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا ہر کوئی ہمارے ہندوستان کی فضاء میں سانس لیتا ہے اور ان ہی دریاؤں کا پانی پیتا ہے اور اسی دھرتی ماں میں اگنے والا اناج کا استعمال بھی کرتا ہے تو اس قسم کی منافرت کا کیا عقلی جواز ہوسکتا ہے ۔ ہندو یا مسلمان اسی فضاء میں سانس لیتے ہیں ، ان کی ہر چیز مشترکہ ہے ۔ صرف ذہنیت کا فرق ہے ۔ ایسے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ پھر کیوں ملک کے غیر مسلم افراد مسلم پکوان کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کھاتے ہیں ۔ سرکاری ڈنر ہو یا ، خانگی دعوتیں ہوں یا حیدرآبادی پکوان کی ہوٹلیں ہوں ان میں اکثریت ہمارے ہندو بھائیوں کی ہوتی ہے ۔ باورچی بھی مسلمان ہوتا ہے ، پکوان کی ترکیب بھی مسلمانوں کی بنائی ہوئی ہوتی ہے ۔ پھر کیسے ان بکواس قسم کی ذہنیت کو برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قطعی غلط اور بالکلیہ طور پر غیر انسانی عمل ہے ۔ لانے والا ہندو ہو یا مسلمان یہ اس کے روزگار سے تعلق رکھتا ہے ۔ آج کل آن لائین پر سب کچھ ہورہا ہے ۔ گھر بیٹھے فون پر آرڈر دے کر جو چاہے منگوایا جاسکتا ہے ۔ ایسی کمپنیوں میں مسلمان بھی ملازمت کیا کرتے ہیں تو کیا ان کے محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں لائی گئی غذائی اشیاء کو قبول نہ کر نا ، انسانی عقل و فہم سے عاری بات نہیں ہے ۔ ایک اور واقعہ یہ بھی ہوا کہ کسی صاحب نے ٹی وی کا کوئی شو دیکھنے کے دوران اپنی آنکھوں کو بند کرلیا کیونکہ ٹی وی شو کا اینکر مسلمان تھا ۔ مسلمان کا چہرہ دیکھنا بھی ان صاحب کو گوارہ نہیں تھا ۔ اینکر ایک پیشہ بن چکا ہے ۔ اس میں ہر قسم کے عقیدہ و مذہب کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان میں سے چند مسلمان بھی ہیں، آخر یہ نفرت ہم کو کہاں تک پہنچائے گی ۔ مسلمانوں کا کلچر ان کی تہذیب ، ان کا عقیدہ اگر اکثریتی طبقہ میں اتنا ناپسندیدہ بن جائے گا تو یہ رجحان ہمیں کہاں پہنچائے گا ۔ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہی ذہنیت ہے ، وہ تمام لوگ ایسی ذ ہنیت رکھتے ہیں ۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ خود وزیراعظم نریندر مودی کے ایک علحدہ قسم کا مزاج رکھتے ہیں ۔ ان کے ظاہر و باطن میں بہت بڑا فرق ہے ۔ وہ جو خود نہیں کہہ سکتے ، ایسی بات دوسروں سے کہلاتے ہیں ۔ جو خود نہیں کرسکتے وہ اپنی پارٹی کے انتہا پسند عناصر سے کہلواتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ دوہرا پن پارٹی کے زوال اور ملک کی تباہی کا باعث بنے گا ۔ مودی جی کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ ان کا یہ نعرہ کہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ دین و دھرم کو وہ غلط انداز میں سمجھتے رہیں گے جو رویہ انتہا پسند ہندو بھائیوں نے اختیار کیا ہے ، اس سے تو سب کا وشواس ، وکاس تو شاہد ممکن نہیں ہوگا ۔ البتہ ہندوستان کا ’’وناش ‘‘ اس طرز عمل سے ضرور ہوسکتا ہے اس لئے کہ وزیراعظم ہند ہونے کے ناطے کسی انتہائی پسندی کو سختی سے ختم کرنے کی نریندر مودی نے کوشش ہی نہیں کی ۔ ہر مرتبہ ایسے کسی واقعہ پر لب کشائی نہیں کی ۔ قانونی نقطہ نظر سے کسی حساس مسئلہ پر خاموشی نیم رضامندی کہلاتی ہے ۔ آخر کیوں ان بے لگام عناصر کو ایسی چھوٹ مل رہی ہے ، کیا وزیراعظم اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ ملک کے اصلی دشمن ہیں۔ انتہا پسند ہیں۔ ان کی حرکت پر خاموشی اختیار کر کے وزیراعظم ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ آج ایسا دور آگیا ہے کہ اس ملک میں کسی کا ہندو یا مسلمان ہونا کوئی مشکل کام نہیں رہا بلکہ اصل مشکل تو یہ آن پڑی ہے کہ موجودہ دور میں اچھا انسان ہونا مشکل ہوگیا ہے ۔ وزیراعظم کی شخصیت کا یہ دوہرا پن ہے کہ وہ پارلیمنٹ ایوان میں تو سخت لب و لہجہ میں منافرت پھیلانے والوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس خدمت کا کوئی عملی ثبوت فراہم نہیں کرتے ، ان میں وہ جرات نہیں ہے جو قومی قائدین گاندھی جی اور پنڈت نہرو میں موجود تھی ۔ دہلی کے ایک فساد کے دوران پنڈت نہرو جی کو یہ خبر ملی کہ ہندو مسلم میں لڑائی ہورہی ہے تو انہوں نے اپنی سکوریٹی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقام واردات پہنچ گئے اور ایک پولیس جوان کے ہاتھ سے لٹ چھین کر مجموعے کو للکارنے لگے کہ ’’بند کرو یہ کم عقلی ‘‘ اور مجموعہ تھم گیا تھا ۔ گاندھی جی نے بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف مکمل بھوک ہڑتال کی تھی اور دونوں فرقوں کو متحد کرنے کے لئے اپنی جان عزیز کو داؤ پر لگادیا تھا ۔ اتنی جرات نہ سہی لیکن مودی جی کم از کم اپنی زبان تو کھولیں اورایسے منفی رجحانات کی بیخ کنی کریں۔ ضیا قاضی نے کہا کہ
کوئی مشکل نہیں ہندو یا مسلمان ہونا
ہاں بڑی بات ہے اس دور میں انسان ہونا
