ہجومی تشدد ، مرکز اور ریاستی حکومتیں کیا کررہی ہیں؟

   

امجد خان
ملک میں ہجومی تشدد کے بے شمار واقعات پیش آئے جن میں درجنوں مسلم نوجوان شہید ہوئے۔ کثیر تعداد میں ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں، بیسیوں بچے یتیم ہوئے لیکن افسوس کہ متاثرین اور شہیدوں کے ورثاء کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، اور نہ ہی انہیں معاوضے دیئے گئے اور ایک دو واقعات میں حکومتوں نے جو معاوضے دیئے وہ بالکل ناکافی تھے۔ مثال کے طور پر راجھستان کے اودئے پور میں جب کنہیا لال نامی ٹیلر کو اس کے قابل اعتراض پوسٹ پر قتل کیا جاتا ہے تو کانگریس کی ریاستی حکومت ( چیف منسٹر اشوک گیہلوٹ ) اس ٹیلر کے خاندان کو50 لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرتے ہیں اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہیں، ایک رکن خاندان کو سرکاری ملازمت فراہم کی جاتی ہے لیکن اسی راجھستان میں جنید اور ناصر کو اغواء کرکے ہریانہ میں انتہائی بیدردی سے قتل کردیا جاتا ہے، انہیں شدید زخمی حالت میں ان کی ہی گاڑی میں رکھ کر زندہ جلادیا جاتا ہے تب چیف منسٹر اشوک گیہلوٹ کی حکومت ان شہید نوجوانوںکے خاندانوں کو فی کس 15 لاکھ روپئے معاوضہ کا اعلان کرتی ہے ( بتایا جاتا ہے کہ اب تک ان خاندانوں کو صرف 5 ، 5 لاکھ روپئے حاصل ہوئے ہیں( ۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اس ریاست میں کانگریس کے جو 9 ارکان اسمبلی ہیں وہ اس ناانصافی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اخلاقی بنیادوں پر چیف منسٹر کو یہ احساس نہیں دلاسکتے کہ ایک غیر مسلم مقتول کے خاندان کو 50 لاکھ اور دو مسلم شہیدوں کے خاندانوں کو فی کس 15 (پندرہ) لاکھ روپئے معاوضہ دیا جانا، ناانصافی ہے اور کانگریس حکومت کو اس طرح کا متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ واضح رہے کہ ہجومی تشدد میں شہید ہونے والے مسلم نوجوانوں کے خاندانوں کے ساتھ ناانصافی و متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کے معاملہ میں بی جے پی اور اس کی زیر اقتدار ریاستیں بدنام ہیں۔ ہریانہ میں 6 سال قبل 27 رمضان کو حافظ جنید نامی کمسن نوجوان کو چلتی ٹرین میں ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا جاتا ہے، فرقہ پرست درندوں نے حافظ جنید اور ان کے بھائی پر چاقوؤں سے حملہ کرتے ہوئے انہیں شدید زخمی کردیا تھا، ان کے جسم پر تقریباً 42 گہرے ضربات پائے گئے تھے۔ سارے ملک اور دنیا بھر میں چیخ و پکار کے بعد چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر جو وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں‘ حافظ جنید شہید کے غمزدہ خاندان کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ آج تک اس خاندان کو بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ایک پیسہ بھی معاوضہ نہیں دیا۔ حافظ جنید شہید کی ماں سائرہ خاتون کا دعویٰ ہے کہ منوہر لال کھتر نے معاوضہ کا اعلان کرنے کے باوجود معاوضہ نہیں دیا۔ اسی طرح ہجومی تشدد میں شہید ہونے والے اکثر نوجوانوں کے خاندانوں کو معاوضے نہیں دیئے گئے بلکہ اُلٹے ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جس کی بدترین مثال جھارکھنڈ میں شہید ہونے والا تبریز انصاری ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے دریافت کیا کہ ہجومی تشدد کی سزا کے ضمن میں اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟۔ آپ کو یاد دلادیں کہ جولائی 2018 میں عدالت عظمیٰ نے ہجومی تشدد جیسے واقعات کو روکنے کیلئے رہنمایانہ خطوط وضع کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران تعزیری اقدامات کیلئے ہدایات دی تھیں۔ اس نے صاف طور پر کہا تھا کہ ملک میں خوف اور افراتفری کے ماحول سے نمٹنا، اس پر قابو پانا، شہریوں کی حفاظت کرنا حکومتوں ( مرکزی و ریاستی ) کی ذمہ داری ہے کیونکہ شہری خود قانون نہیں بن سکتے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون بنائے اور حکومتوں کو دستور کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ امن قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے جو خاص بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ اس نے پُرزور انداز میں کہا تھا کہ حکومت ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے اور اس کیلئے سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو عدالتی حکم کے نفاذ کیلئے 4 ہفتوں کی مہلت دی تھی۔ موقر انگریزی روز نامہ ’ دِی ہندو‘ میں کچھ دن پہلے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جسٹس سنجیو کھنہاور ایم ترویدی پر مشتمل ایک ڈیویژن بنچ نے ریاستی حکومتوں سے ہجومی تشدد کے واقعات سے متعلق درج کی گئی شکایتوں، ایف آئی آرس اور عدالتوں میں پیش کئے گئے چالانات کے سلسلہ میں 2018 سے سالانہ ڈیٹا داخل کرنے کیلئے کہا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ حکومت جولائی 2018 میں سپریم کورٹ نے جو احتیاطی تدابیر یا رہنمایانہ ضابطے بنائے ہیں ان کی تعمیل میں کئے گئے اقدامات کے بارے میں تازہ ترین Status Report پیش کرے۔ درخواست گذار تشار گاندھی کے وکیل شعیبب عالم نے عدالت کو بتایا کہ ایک سال میں ہجومی تشدد کے کم از کم دس واقعات پیش آئے ہیں ایسے میں مرکز اور ریاست کو اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنی چاہیئے۔

x

امجد خان
ملک میں ہجومی تشدد کے بے شمار واقعات پیش آئے جن میں درجنوں مسلم نوجوان شہید ہوئے۔ کثیر تعداد میں ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں، بیسیوں بچے یتیم ہوئے لیکن افسوس کہ متاثرین اور شہیدوں کے ورثاء کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، اور نہ ہی انہیں معاوضے دیئے گئے اور ایک دو واقعات میں حکومتوں نے جو معاوضے دیئے وہ بالکل ناکافی تھے۔ مثال کے طور پر راجھستان کے اودئے پور میں جب کنہیا لال نامی ٹیلر کو اس کے قابل اعتراض پوسٹ پر قتل کیا جاتا ہے تو کانگریس کی ریاستی حکومت ( چیف منسٹر اشوک گیہلوٹ ) اس ٹیلر کے خاندان کو50 لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرتے ہیں اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہیں، ایک رکن خاندان کو سرکاری ملازمت فراہم کی جاتی ہے لیکن اسی راجھستان میں جنید اور ناصر کو اغواء کرکے ہریانہ میں انتہائی بیدردی سے قتل کردیا جاتا ہے، انہیں شدید زخمی حالت میں ان کی ہی گاڑی میں رکھ کر زندہ جلادیا جاتا ہے تب چیف منسٹر اشوک گیہلوٹ کی حکومت ان شہید نوجوانوںکے خاندانوں کو فی کس 15 لاکھ روپئے معاوضہ کا اعلان کرتی ہے ( بتایا جاتا ہے کہ اب تک ان خاندانوں کو صرف 5 ، 5 لاکھ روپئے حاصل ہوئے ہیں( ۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اس ریاست میں کانگریس کے جو 9 ارکان اسمبلی ہیں وہ اس ناانصافی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اخلاقی بنیادوں پر چیف منسٹر کو یہ احساس نہیں دلاسکتے کہ ایک غیر مسلم مقتول کے خاندان کو 50 لاکھ اور دو مسلم شہیدوں کے خاندانوں کو فی کس 15 (پندرہ) لاکھ روپئے معاوضہ دیا جانا، ناانصافی ہے اور کانگریس حکومت کو اس طرح کا متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ واضح رہے کہ ہجومی تشدد میں شہید ہونے والے مسلم نوجوانوں کے خاندانوں کے ساتھ ناانصافی و متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کے معاملہ میں بی جے پی اور اس کی زیر اقتدار ریاستیں بدنام ہیں۔ ہریانہ میں 6 سال قبل 27 رمضان کو حافظ جنید نامی کمسن نوجوان کو چلتی ٹرین میں ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا جاتا ہے، فرقہ پرست درندوں نے حافظ جنید اور ان کے بھائی پر چاقوؤں سے حملہ کرتے ہوئے انہیں شدید زخمی کردیا تھا، ان کے جسم پر تقریباً 42 گہرے ضربات پائے گئے تھے۔ سارے ملک اور دنیا بھر میں چیخ و پکار کے بعد چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر جو وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں‘ حافظ جنید شہید کے غمزدہ خاندان کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ آج تک اس خاندان کو بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ایک پیسہ بھی معاوضہ نہیں دیا۔ حافظ جنید شہید کی ماں سائرہ خاتون کا دعویٰ ہے کہ منوہر لال کھتر نے معاوضہ کا اعلان کرنے کے باوجود معاوضہ نہیں دیا۔ اسی طرح ہجومی تشدد میں شہید ہونے والے اکثر نوجوانوں کے خاندانوں کو معاوضے نہیں دیئے گئے بلکہ اُلٹے ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جس کی بدترین مثال جھارکھنڈ میں شہید ہونے والا تبریز انصاری ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے دریافت کیا کہ ہجومی تشدد کی سزا کے ضمن میں اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟۔ آپ کو یاد دلادیں کہ جولائی 2018 میں عدالت عظمیٰ نے ہجومی تشدد جیسے واقعات کو روکنے کیلئے رہنمایانہ خطوط وضع کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران تعزیری اقدامات کیلئے ہدایات دی تھیں۔ اس نے صاف طور پر کہا تھا کہ ملک میں خوف اور افراتفری کے ماحول سے نمٹنا، اس پر قابو پانا، شہریوں کی حفاظت کرنا حکومتوں ( مرکزی و ریاستی ) کی ذمہ داری ہے کیونکہ شہری خود قانون نہیں بن سکتے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون بنائے اور حکومتوں کو دستور کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ امن قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے جو خاص بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ اس نے پُرزور انداز میں کہا تھا کہ حکومت ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے اور اس کیلئے سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو عدالتی حکم کے نفاذ کیلئے 4 ہفتوں کی مہلت دی تھی۔ موقر انگریزی روز نامہ ’ دِی ہندو‘ میں کچھ دن پہلے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جسٹس سنجیو کھنہاور ایم ترویدی پر مشتمل ایک ڈیویژن بنچ نے ریاستی حکومتوں سے ہجومی تشدد کے واقعات سے متعلق درج کی گئی شکایتوں، ایف آئی آرس اور عدالتوں میں پیش کئے گئے چالانات کے سلسلہ میں 2018 سے سالانہ ڈیٹا داخل کرنے کیلئے کہا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ حکومت جولائی 2018 میں سپریم کورٹ نے جو احتیاطی تدابیر یا رہنمایانہ ضابطے بنائے ہیں ان کی تعمیل میں کئے گئے اقدامات کے بارے میں تازہ ترین Status Report پیش کرے۔ درخواست گذار تشار گاندھی کے وکیل شعیبب عالم نے عدالت کو بتایا کہ ایک سال میں ہجومی تشدد کے کم از کم دس واقعات پیش آئے ہیں ایسے میں مرکز اور ریاست کو اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنی چاہیئے۔