ہجوم کے آگے اڈمنسٹریشن بے بس

   

رویش کمار
اترپردیش میں 28 سالہ سجیت کمار کو لوگوں نے چور سمجھ کر نہ صرف مارپیٹ کی بلکہ اسے زندہ جلا دینے کی کوشش کی۔ سجیت اپنے سسرالی مکان کو جارہا تھا۔ آوارہ کتے پیچھے پڑگئے اور اس نے ایک مکان میں پناہ لی۔ لوگوں نے اسے سارق سمجھ کر گیسولین ڈال کر آگ لگادی۔ سجیت لکھنو کے سیول ہاسپٹل میں زیرعلاج ہے۔ یہ ضلع بارہ بنکی کا واقعہ ہے اور خبر نیوز ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ نے دی ہے۔ چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بہار میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا، جہاں ضلع سرن کے بنیاپور گاؤں میں تین افراد کو چوری کے الزام پر پکڑ کر ہلاک کردیا گیا۔ پٹھوری نندلال تولا میں دیہاتیوں نے تین نوجوانوں کو مویشی چرانے کے الزام پر پکڑا اور اتنا پیٹا کہ دو نے وہیں دم توڑ دیا۔ تیسرے کی موت اسپتال میں ہوئی۔ یہ تینوں نوشاد، راجیو اور سریش تھے۔

گزشتہ سال مئی میں ضلع ارریا میں بھی ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مہیش یادو کو مویشی چوری کرنے پر ہلاک کیا گیا۔ ملک بھر میں بچوں کو اغوا کرلینے کے اندیشے پر لوگوں نے درجنوں مشتبہ اغواکاروں کو پکڑا۔ جھارکھنڈ میں تبریز کا قتل اسی وہم کے سبب ہوا۔
ان واقعات کے تناظر میں مملکت اور سماج کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ سوسائٹی اور اسٹیٹ کے درمیان کوئی گہرا رشتہ قائم ہے۔ لوگ خود سرکار بن گئے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے کہ کسی کو پٹرول ڈال کر جلایا جائے یا کسی کو ہلاک کردیا جائے۔ یہ جنون کیونکر پیدا ہورہا ہے؟ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ متعلقہ حکام ایسے واقعات کا خاطرخواہ نوٹ نہیں لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پوری طرح واضح کیا ہے کہ ہجومی تشدد کے کیس میں تحقیقات کس طرح کی جائے، کون جوابدہ رہے گا؟ مرکز اور ریاستی حکومتیں دونوں پر انسداد تشدد کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ عوام میں تشہیر اور بیداری کے ذریعے بھی کام کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔
پھر ایک دن آپ ’انڈین اکسپریس‘ میں یہ خبر پڑھتے ہو کہ 2013ء کے مظفرنگر فسادات کے 41 کیسوں کے منجملہ 40 کے ملزمین کو بری کردیا گیا ہے۔ ان فسادات میں گھناؤنا تشدد برپا کیا گیا۔ معمر مسلم اشخاص کو بھگا بھگا کر قتل کیا گیا۔ تاہم، خود مقتول کے رشتے دار اور پانچ گواہ منحرف ہوگئے اور پولیس نے ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکی۔ مظفرنگر فسادات میں 65 افراد ہلاک ہوئے۔ کئی کیس درج رجسٹر کئے گئے۔ لیکن کوئی خاطی نہیں۔ اس طرح کا معاملہ چلتا رہا تو مجرمین کے حوصلے بڑھتے جائیں گے۔ اب ہجومی تشدد نیا سیاسی ہتھیار بن چکا ہے۔ چاہے کچھ کرلیں، ہجوم آخرکار قانون کی گرفت سے بچ ہی جاتا ہے۔ انڈین اکسپریس نے کورٹ اور گواہوں کے ریکارڈز کا جامع جائزہ لیا ہے۔ اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہجوم بالآخر بچ جاتا ہے۔ یہ واقعہ پر توجہ دیجئے کہ ایک فیملی کو جلایا جاتا ہے، تین دوستوں کو کھیت میں ہلاک کیا گیا۔ صدر خاندان کو تلوار سے قتل کردیا گیا۔ ان کیسوں میں 53 ملزمین بری ہوگئے۔ پھر وہ کون ہیں جنھوں نے قتل کئے؟ یہ رجحان تو گینگ ریپ کے 26 کیسوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ واقعات کو ہندی اخبارات شائع نہیں کررہے ہیں۔
انڈین اکسپریس کے مطابق یو پی حکومت نے ملزمین کی برأت پر ہائی کورٹ میں اپیل تک نہیں کی ہے۔ ہجوم خود عدالت بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں میں کوئی لا اینڈ آرڈر سسٹم نہیں ہے۔ اس طرح کا تشدد کوئی ایک دو قتل کا سبب نہیں بن رہا ہے بلکہ حکومت، دستور اور سسٹم کے وجود کو چیلنج کررہا ہے۔ بھوپال میں سابق بی جے پی رکن اسمبلی سریندر ناتھ سنگھ ماما کو گرفتار کیا گیا کیونکہ سابق لیجسلیٹر نے ایک مظاہرے کے دوران کہا کہ چیف منسٹر کمل ناتھ بھی ہلاکت سے بچ نہیں پائیں گے۔ بعد میں سریندر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سریندر کے زبانی تشدد کو بھی وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے عملاً قبول کیا ہے۔ سریندر نے آکاش وجئے ورگیا کے کیس کو بھی فراموش کردیا جس کا نوٹ لیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ ویسے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
حکومت ہند نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہندوستان رفیوجیوں کا گڑھ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (NRC) کے تعلق سے سماعت کے وقت کی بات ہے۔ مرکزی حکومت اور آسام حکومت دونوں کا مطالبہ ہے کہ 20 فی صد این آر سی پر نظرثانی کرنا چاہئے کیونکہ لاکھوں لوگوں کے سرٹفکیٹ درست نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کی سرحد سے گھسنے والے لاکھوں افراد کو این آر سی میں غلطی سے شامل کیا گیا ہے۔ وہ درانداز اور غیرقانونی طور پر مقیم لوگ ہیں۔ سرحدی علاقہ میں جامع سروے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ دونوں حکومتوں نے این آر سی کی فائنل لسٹ کی اجرائی کیلئے قطعی مہلت کو 31 جولائی سے بڑھا کر 31 اگست کردینے کی پُرزور استدعا کی جسے سپریم کورٹ نے قبول کرلیا۔
رفیوجی کی سیاست دنیا کے کئی ملکوں میں تبدیل ہورہی ہے۔ جرمنی جیسے ممالک جہاں پناہ گزینوں کو جگہ دی جارہی ہے، انھیں روس متنبہ کررہا ہے کہ یہ رجحان ٹھیک نہیں۔ اس مسئلہ پر امریکہ میں روزانہ سیاسی ٹکراؤ ہورہا ہے۔ ’واسو دھائیوا کٹم بکم‘ پوری دنیا کی فیملی ہے، پھر ساری دنیا اس فیملی کیلئے کیوں نہیں؟ بعض لوگ جان بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ سے یزیدی جہدکار نادیہ مراد کی گفتگو کا ویڈیو دیکھئے۔ نادیہ کے الفاظ کے احساس کو سمجھئے۔ کن حالات میں وہ عراق سے فراری پر مجبور ہوئے۔ ہندوستان کے لاکھوں شہری دنیا بھر کے ملکوں میں رہتے ہیں۔ کسی وقت وہ بھی خود کو رفیوجی سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا، اس کو رفیوجی کو بوجھ نہیں سمجھنا چاہئے۔ وہ اپنی محنت کرکے جی لیتے ہیں۔ اس بات کو سمجھ لیں تو دنیا مختلف لگے گی۔

مملکتی وزیر جتندر سنگھ نے لوک سبھا میں آر ٹی آئی ترمیمی قانون 2019ء متعارف کرایا۔ انفرمیشن کمشنرس کے معاملے میں تین چیزیں قابل ذکر ہیں۔ چیف انفرمیشن کمشنر اور انفرمیشن کمشنرس 5 سال کیلئے مقرر کئے گئے۔ اب مرکز طے کرے گا کہ اُن کی میعاد 5 سال رہے گی یا کچھ اور؟ مرکز اس ضمن میں ریاستوں کیلئے بھی فیصلہ کرے گا۔ سی آئی سی اور انفرمیشن کمشنرس کی خدمات اور قواعد کار الیکشن کمشنرس کی مانند ہیں۔ تاہم، اب قواعد و شرائط میں تبدیل ہوگی۔ حکومت نے بل میں صراحت کی ہے کہ الیکشن کمیشن دستوری ادارہ ہے اور انفرمیشن کمیشن قانونی ادارہ۔ دونوں میں فرق ہے۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ حکومت انفرمیشن کمیشن اور کمشنرس کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ حق معلومات کے جہدکاروں کو بھی اس تعلق سے اندیشے ہیں۔ انفرمیشن کمشنر کی خودمختاری کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔

ہیومن رائٹس پروٹکشن امینڈمنٹ بل کی لوک سبھا میں منظوری کے موقع پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیر اور موجودہ بی جے پی ایم پی ستیہ پال سنگھ نے کہا کہ انسانوں کا ارتقائی سفر بندروں کے ساتھ شروع نہیں ہوا۔ ہم دانا و حکیم آباواجداد کی اولاد ہیں۔ ہندوستان میں روایتی طور پر انسانی حقوق پر نہیں بلکہ رسوم پر توجہ دی گئی۔ سائنس میں ارتقائی عمل کی تشریح کی گئی ہے۔ ڈاروِن نے 1859ء میں اپنا نظریہ پیش کیا۔ ایسا مانا گیا کہ 40 ملین سال قبل انسانوں کا جنم Australopithecus (دو ٹانگوں والے بند کی نسل جو اَب ناپید ہے) سے ہوا۔ اس کے بعد انسان مختلف مراحل سے گزرتا رہا، جن کے مختلف نام ہیں۔ ڈارون نے بلاشبہ تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس طرح سادہ طریقہ سے انسان وجود میں نہیں آیا۔ ستیہ پال کا ارتقائی نظریہ مختلف ہے۔ آئی آئی ٹی اور اِسرو کے سائنس دانوں کو ستیہ پال کے نقطہ نظر پر رائے دینا چاہئے۔ جنوری 2018ء میں ستیہ پال نے ڈارون کے نظریہ کو چیلنج بھی کیا تھا۔ تب وہ مملکتی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل تھے۔ ستیہ پال کے بیان کے بعد اُن کے کابینی رفیق پرکاش جاوڈیکر نے کہا تھا کہ اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہئیں۔ لیکن ستیہ پال نے یہی بیان سات ماہ بعد ایک کتاب کی اجرائی کے موقع پر بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ جنوری کا بیان لطیفہ نہیں۔ ’’میں سائنس کا طالب علم ہوں۔ میں سائنس سمجھتا ہوں۔ ڈارون کی تھیوری سائنسی اعتبار سے غیردرست ہے۔ میں خود کو کسی بندر کی اولاد نہیں سمجھتا ہوں۔ کسی نے بھی بندر کو انسان بنتے نہیں دیکھا ہے۔ ‘‘
[email protected]