ہریانہ اسمبلی انتخابات 2019 کے نتائج منظر عام پر آچکے ہیں۔ اور کسی بھی جماعت جو واضح اکثریت نہیں ملی ہے، ایسی صورتحال میں یہاں ہیرا پھیری کی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آج جمعہ کے دن منوہر لال کھٹر حکومت بنانے کے لیے دعویٰ پیش کرینگے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اپنی اکثریت کو کس طرح ثابت کریں گے۔ بہرحال مگر ،وہ اکثریت کے لیے درکار چھ ارکان اسمبلی کہاں لائیں گے؟ حکومت سازی کے لیے بی جے پی مکمل فارمولا کیا ہے؟ نتائج پر ایک نظر ڈالیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ بھاجپا کس طرح ہریانہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
ہریانہ کی 90 رکنی اسمبلی میں بی جے پی نے 40 نشستوں پر بازی ماری ہے۔ کانگریس کے پاس 31 سیٹیں ہیں۔ اس کے علاوہ 10 ماہ قبل تشکیل پانے والی جننائک جنتا پارٹی یعنی جے جے پی نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ 7 نشستیں آزاد امیدواروں کے کھاتے میں آئیں ہیں۔ انڈین نیشنل لوک دل اور ہریانہ لوک ہیت پارٹی کو ایک،ایک سیٹ ملی ہے۔
ہریانہ میں حکومت بنانے کے46 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہوناضروری ہے اس کا مطلب یہ کہ ہریانہ اسمبلی میں جادوئی نمبر46 ہے۔ یعنی بی جے پی کو حکومت بنانے کے لئے مزید 6 نشستوں کی ضرورت ہے۔ جبکہ کانگریس یہاں حکومت بنانے کی دوڑ میں 15 نشستوں سے دور ہے۔
ہریانہ میں آزاد امیدواروں نے 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی ، اگر آزاد ایم ایل اے بی جے پی کے حق میں آتے ہیں ، تو منوہر لال کھٹر کے وزیراعلی بننا طئ ہے۔ سرسہ سے جیتنے والے ہریانہ جنہت پارٹی کے رہنما گوپال کنڈا کے بھائی گووند کنڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ساتھ 6 آزاد ایم ایل اے ہیں جو بی جے پی کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ گوپال کانڈا چھ آزاد ایم ایل اے کے ساتھ جمعرات کی رات دہلی پہنچے۔ ذرائع کے مطابق گوپال کانڈا نے رات دیر گئے بی جے پی کے کارگذار صدر جے پی نڈا سے ملاقات کی ہے۔
جن نائک جنتا پارٹی اس بارکنگ میکر کا کردا ادا کرسکتی ہے۔ جے جے پی نے نتائج میں 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ جان نائک جنتا پارٹی کے رہنما دشینت چوٹالہ حکومت بنانے کے لئے کس کی حمایت کریں گے؟ اس وقت کہنا مشکل ہے۔ انہوں نے ابھی تک اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کی پارٹی بی جے پی یا کانگریس کی حمایت کرے گی ، چوٹالہ نے کہا ، “ابھی کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی۔” پہلے ہم اپنے اراکین اسمبلی کی میٹنگ طلب کریں گے ، اور فیصلہ کریں گے کہ ایوان میں ہمارا قائد کون ہوگا اور پھر اس پر آگے سوچیں گے۔ ”اس طرح سے ، بی جے پی کو بھی یہاں سے حمایت ملنے کے امکانات ہیں۔