ہریانہ انتخابات میں کانگریس کیوں ہاری ؟

   

یوگیندر یادو
ہریانہ اسمبلی کے انتخابی نتائج آچکے ہیں، سیاسی تجزیہ نگاروں و مبصرین کے اندازے اور تمام اگزٹ پولس میں کانگریس کی کامیابی اور بی جے پی کی ناکامی سے متعلق جو پیش قیاسیاں کی گئیں وہ تمام کی تمام غلط ثابت ہوئیں۔
بہرحال ہریانہ کے جو بھی نتائج منظرِ عام پر آئے ، جس طرح ابتداء میں کانگریس کا موقف بی جے پی سے کہیں زیادہ بہتر بتایا گیا اور پھر آخر میں بی جے پی کو جس طرح کامیابی ملی اسے ہم کرکٹ اور کرکٹ کے میدان کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہریانہ میں پچھلے دو انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور اب مسلسل تیسری مرتبہ اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ ان انتخابات کو سمجھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اختیار کردہ کئی ایک حکمت عملیوں کے نتیجہ کے طور پر دیکھا جائے۔ حکمراں جماعت کی ان ہی حکمت عملیوں نے کانگریس کو حاصل ہونے والے ابتدائی فوائد کو بے اثر کردیا( کانگریس کے بارے میں مسلسل یہی کہا جارہا تھا کہ اب کی بار ہریانہ میں چونکہ حکومت مخالف لہر چل رہی ہے ایسے میں اسے کامیابی ملے گی) ۔
اگر کرکٹ کی اصطلاح میں اسے بیان کیا جائے تو ہریانہ اسمبلی انتخابات ایک ایسا T-20 میچ تھا جسے دو اوورس قبل ہی جیت لیا جانا چاہیئے تھا لیکن اُسے آخری گیند تک گھسیٹا گیا اور ہارا گیا۔بہرحال ہریانہ اسمبلی انتخابات اور ان کے نتائج کو سمجھانے کیلئے ہمیں تین چیزوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں آخر کیوں اس بات کی توقع ہم نے کی کہ یہ ایک آسان معاملہ ہے؟ میچ کو آخری گیند تک کیوں گھسیٹا گیا ؟ کیوں ہارا گیا؟ لہذا ہریانہ کیلئے ہمیں کانگریس کے سمجھے جانے والے فوائد کی ساختی وجوہات اور پھر بی جے پی کو اسے بے اثر کرنے میں معاون ثابت ہونے والے اسٹراٹیجک عوامل اور بھاجپا کی غیر متوقع جیت کیلئے اختیار کردہ حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاست میں اس مرتبہ بی جے پی کی کامیابی کی توقع نہیں کی گئی تھی ، ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ بی جے پی کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ ان سوالات کی طرف جانے سے پہلے ایک قانونی وضاحت راقم اس معروضہ پر لکھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نتیجہ لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے طریقہ کی منصفانہ عکاسی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ کانگریس نے نتائج پر سنگین اعتراضات کئے ہیں اور اپنے شکوک و شبہات ، الزامات و اعتراضات کے ثبوت میں شواہد بھی پیش کئے ہیں۔ ساتھ ہی کانگریس نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ نتائج میں جو اُلٹ پھیر کی گئی اس بارے میں مزید ثبوت و شواہد اور دلائل پیش کئے جائیں گے۔ اب الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کانگریس کے الزامات پر وضاحت پیش کرے۔ میں نے سرکاری نتائج کو بطور مثال لیا ہے اور ہیرا پھیری سے متعلق جو الزامات عائد کئے جارہے ہیں انہیں بھی غور کرنے کے دائرہ میں شامل کیا ۔
سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کانگریس کو ابتداء میں بی جے پی پر برتری حاصل تھی اور پھر اس میں ساختی تبدیلی واضح ہوئی وہ کیسے ہوئی ؟ آپ کو بتادیں کہ لوک سبھا انتخابات 2014 سے قبل ہریانہ میں کانگریس کا ووٹ شیئر گر کر عام انتخابات 2014 میں 23 فیصد ہوگیا۔ اس سال اسمبلی انتخابات میں اس کا ووٹ شیئر 21 فیصد تک محدود رہ گیا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوکر29 فیصد ہوا جبکہ اسمبلی انتخابات میں 28 فیصد رہا۔ لوک سبھا انتخابات 2019 میں وہ بی جے پی سے 30 فیصد پوائنٹس سے پیچھے رہی۔ ہریانہ کانگریس اُتر پردیش اور بہار میں اپنی ہم منصب سیاسی جماعتوں کا حشر دیکھ رہی تھی جہاں کسانوں کی تحریک اور خاتون پہلوانوں کے احتجاجی مظاہروں نے پولٹیکل لینڈ اسکیپ تبدیل کرکے رکھ دیا اور وہاں برتری کی حامل کسان برادری بی جے پی سے دوری اختیار کررہی تھی۔
راقم الحروف بھی ان بہت سارے تجزیہ کاروں میں شامل تھا جن کا ایقان تھا کہ کانگریس کیلئے یہ ابتدائی ساختی فائدہ بہت بڑا اور مختصر مدت میں ناقابل تنسیخ تھا جو بی جے پی کی کسی بھی حکمت عملی یا اس حکمت عملی کے اثر کو جذب کرنے کیلئے کافی تھا۔ اگرچہ لوک سبھا انتخابات کے برعکس راقم نے ہریانہ اسمبلی میں نشستوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیش قیاسی کرنے سے گریز کیا تاہم میں نے بڑے پیمانہ پر اس ایقان کا اظہار کیا اور اسے شیئر بھی کیا کہ کانگریس کو بڑی آسانی سے اکثریت حاصل ہوگی( اس کے حق میں لہر چلے گی یا عوامی تائید وحمایت کی سونامی چلے گی)۔یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے کہ بی جے پی کے سیاسی حکمت عملی سازوں نے اس قدر ہشیاری سے کام لیا کہ انہوں نے پریشان کن صورتحال میں بھی مواقع تلاش کرلئے، ان لوگوں نے محسوس کیا کہ کانگریس کے تئیں سب سے بڑی منتقلی زیادہ تر جاٹوں کی طرف سے ہوئی ایسے میں بی جے پی کے حکمت سازوں نے دیکھا کہ ذیلی کوٹہ تنازعہ کے پیش نظر دلت ووٹوں کو تقسیم کرنے کا ایک موقع موجود ہے اور ان لوگوں نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اس طرح وہ لوگ اپنی حکمت عملی پر بڑی احتیاط کے ساتھ کام کرتے رہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے اپنی خصوصی حکمت عملی کے ذریعہ کانگریس کو حاصل ہونے والے ابتدائی فوائد کو بے اثر کردیا اور پھر ہریانہ میں مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ بی جے پی کی اس کامیابی کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کا کانگریس کو ایک سنہری موقع ملا لیکن وہ اس کا خاطر خواہ فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہی۔