تحفظ گاؤکیلئے 510 کروڑ روپئے کا بجٹ
سشیل مانو
بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں گائے کو انسان سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس کی زیر اقتدار ریاست ہریانہ میں گاؤ رکھشا یا گائیوں کے تحفظ کیلئے 5 سال قبل بجٹ میں جو دو کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے اسے بڑھا کر اب 510 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ گاؤ رکھشا (تحفظ گاؤ ) کیلئے بجٹ میں508 کروڑ روپئے کا اضافہ دس برسوں کے دوران کیا گیا ہے۔چیف منسٹر نایاب سنگھ سائنی نے تحفظ گاؤ کے بجٹ میں اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ریاست میں نہ صرف تحفظ گاؤ بلکہ ان صنعتوں کی مدد کرے گی جو گائے کے گوبر اور پیشاب استعمال کرتے ہوئے ان کی مصنوعات بنارہی ہیں( یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو سیاستداں گائے کے گوبر اور پیشاب کے استعمال کی چاہے وہ ادویات کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں باتیں کرتے ہیں وہ خود گوبر اور پیشاب سے کراہیت محسوس کرتے ہیں‘ خود نہیں پیتے لیکن دوسروں کو پینے کا بڑی بے شرمی سے مشورہ دیتے ہیں )۔
واضح رہے کہ ہریانہ میں گائیوں کے تحفظ کیلئے سال 2010 میں گاؤ سیوا أیوگ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا اور اس کیلئے بجٹ میں 2 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی حکومت نے ریاست میں اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں اس بجٹ میں 250 گنا اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح جو بجٹ مالی سال 2014-15 میں صرف 2 کروڑ روپئے تھا اب وہ بڑھ کر 510 کروڑ روپئے ہوگیا۔ حکومت ہریانہ نے ریاست میں گوبر اور پیشاب کی مصنوعات کو فروغ دینے کئی ایک مراعات اور سہولتوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گائے کا گوبر اور پیشاب صابن، شیمپوز سے لیکر نامیاتی پینٹس، گھڑے، دیئے ( چراغ ) ، ہون کا سامان اور اینٹوں کی تیاری میں استعمال کئے جارہے ہیں۔ جب سے 2014 میں ہریانہ میں منوہر لال کھتر کی زیر قیادت بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی اس کے ساتھ ہی اس نے تحفظ گاؤ بشمول آوارہ جانوروں کی بازآبادکاری کیلئے سخت قوانین لائے اور فنڈس فراہم کئے۔
ایک طرف تحفظ گاؤ کیلئے حکومت نے متعدد اقدامات کئے تو دوسری طرف خود ساختہ گاؤ رکھشکوں نے خود کے قانون سے بالاتر ہونے کا احساس دلاکر گائے کے تحفظ کے نام پر بے قصور انسانوں کو ہجومی تشدد میں نشانہ بناکر انہیں موت کی نیند سلادیا۔ ان گاؤ رکھشکوں نے قانون کو نظرانداز کرکے نہ صرف ہجومی تشدد میں بے قصور نوجوانوں کے قتل کئے بلکہ اس بہانہ بڑے پیمانے پر تشدد بھی برپا کیا۔ اگرچہ ہریانہ گاؤ سیوا أیوگ سابقہ کانگریس حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔ بی جے پی حکومت نے اس ادارہ کو بہت زیادہ سرگرم بنایا۔ اس کی ویب سائیٹ میں بتایا گیا کہ اُسے ہریانہ گاؤ سیوا ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت قائم کیا گیا۔ یہ قانون ریاست میں گائیوں کے تحفظ اور ان کی بہبود کیلئے مدون کیا گیا تھا۔ ویسے بھی اس قانون کا مقصد گائیوں پر مظالم اور ذبیحہ گاؤپر بہتر انداز میں عمل آوری کو یقینی بنانا ہے۔ ہریانہ گاؤ سیوا أیوگ کے صدرنشین شراون گرگ‘ چیف منسٹر کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کی کوششوں نے ریاست میں گائیوں کے تحفظ کو ایک نئی جہت دی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کانگریس اقتدار کے دوران ریاست میں 215 گاؤ شالائیں تھیں جن میں 1.74 لاکھ بڑے جانور موجود تھے لیکن آج ریاست میں 683 رجسٹرڈ گاؤ شالائیں ہیں اور جہاں 4.5 لاکھ جانوروں کو رکھا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سڑکوں پر گھومنے والی آوارہ گائیوں، بیلوں کی تعداد جو 1.5 لاکھ تھی اب ان کی تعداد گھٹ کر 40 ہزار ہوگئی اور اُمید ہے کہ 31 مارچ تک ایسے آوارہ جانوروں کی تعداد صفر ہوجائے گی۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ریاست میں گوبر اور پیشاب استعمال کرکے آرگانک پینٹس اور کھاد تیار کرنے والی صنعتی یونٹس قائم ہورہی ہیں۔ ہریانہ میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ 330 گاؤ شالاؤں میں سولار اِنرجی پلانٹس نصب کئے گئے۔ گوشالاؤں کو 2 روپئے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔ ہریانہ میں گاؤ شالا منتقل کئے جانے والے بچھڑوں کیلئے 300، گائے کیلئے 600 اور بیلوں کیلئے 800 روپئے دیئے جارہے ہیں۔ ( واضح رہے کہ حکومت ہریانہ بڑے جانوروں کی بہبود کیلئے ڈھیر سارے بہبودی اقدامات کرنے کے دعوے کررہی ہے لیکن وہ ہجومی تشدد اور تحفظ گاؤ کے نام پر بے قصور انسانوں کے قتل کے واقعات اور تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے)۔