ہر ایک مسلم ووٹ اہم ، تلنگانہ میں کانگریس بمقابلہ بی جے پی الیکشن

   

سکندرآباد ، ملکاجگری اور چیوڑلہ کے علاوہ نظام آباد اور کریم نگر کے مسلمان ووٹ مرکزی کردار میں
حیدرآباد ۔ 9۔ مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کی مہم فیصلہ کن موقف میں داخل ہوچکی ہے۔ ابتدائی مرحلہ میں ریاست میں سہ رخی مقابلہ کی پیش قیاسی کی جارہی تھی لیکن جیسے جیسے رائے دہی کی تاریخ قریب آرہی ہے، ریاست میں دو رخی مقابلہ طئے دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی نے بی آر ایس جیسی مضبوط پارٹی کو تیسرے مقام پر ڈھکیل دیا ہے۔ تلنگانہ ک تازہ ترین سیاسی صورتحال میں مسلم رائے دہندے فیصلہ کن موقف میں ہیں اور ان کا کوئی بھی فیصلہ ریاست کے سیاسی مستقبل کو طئے کر ے گا۔ تلنگانہ میں 119 اسمبلی حلقہ جات میں 48 حلقہ جات ایسے ہیں جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ اس اعتبار سے مسلم رائے دہندے تلنگانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں کے نتائج پر بآسانی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اب جبکہ ریاست میں کانگریس کا بی جے پی سے راست مقابلہ ہے، ایسے میں تلنگانہ کو ہر ایک مسلم ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہوچکی ہے۔ تلنگانہ کے پرامن اور سیکولر ماحول کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان شعور بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رائے دہی میں بھرپور انداز میں حصہ لیں۔ اب جبکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ تلنگانہ کا الیکشن سیکولر اور فرقہ پرست طاقتوں کے درمیان ہیں، لہذا مسلم رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط ہونے سے روکنے کیلئے کانگریس کی تائید کریں۔ بی جے پی نے جن 10 لوک سبھا حلقوں پر توجہ مرکوز کی ہے ، ان میں سکندرآباد ، ملکاجگری ، چیوڑلہ ، نظام آباد اور کریم نگر میں مسلم ووٹ توازن قوت کے حامل ہیں۔ جس امیدوار کے حق میں بھی مسلمان رائے دہی کریں گے ، وہ ضرور کامیاب ہوسکتا ہے۔ رائے دہی سے قبل سکندرآباد اور چیوڑلہ حلقہ جات کے بارے میں عوامی رجحانات پر مبنی تازہ ترین سروے چونکا دینے والا ثابت ہوا ہے۔ دونوں حلقہ جات جو گریٹر حیدرآباد کا حصہ ہیں ، وہاں بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ فیصد میں بمشکل 2 تا 3 فیصد کا فرق ہے۔ سکندرآباد میں بی جے پی کو 37 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی پیش قیاسی کی گئی ہے جبکہ کانگریس کے حق میں 35 فیصد ووٹنگ کا اندازہ ہے۔ بی آر ایس 25 فیصد کے ساتھ تیسرے مقام پر ہے۔ 2 فیصد کے اس فرق کو مسلم رائے دہی کے ذریعہ بآسانی دور کیا جاسکتا ہے۔ چیوڑلہ لوک سبھا حلقہ کے سروے کے مطابق بی جے پی 35 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ سبقت حاصل کئے ہوئے ہے۔ کانگریس کو 32 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی امید ہے جبکہ بی آر ایس 12 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس حلقہ میں مسلم رائے دہندے سروے کو کانگریس کے حق میں کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اگر مسلمان صد فیصد رائے دہی کریں اور متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو سکندرآباد اور چیوڑلہ کو بی جے پی کے چنگل میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ سکندرآباد ، نظام آباد اور کریم نگر پر فی الوقت بی جے پی کے سٹنگ ارکان پارلیمنٹ ہیں ، لہذا بی جے پی قیادت کو دوبارہ کامیابی کی امید ہے ۔ مذکورہ تینوں حلقہ جات میں کریم نگر اور نظام آباد میں مسلم رائے دہندوں نے تبدیلی کے حق میں من بنالیا ہے ۔ بی آر ایس امیدواروں کی سرگرم مہم کے باوجود مسلمانوں کا احساس ہے کہ بی جے پی کو کامیابی سے روکنا صرف کانگریس سے ممکن ہے ۔ عوامی رجحانات اور تازہ ترین سروے مسلم رائے دہندوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ بیشتر حلقہ جات میں محض 2 تا 3 فیصد کے فرق کے ساتھ کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر تلنگانہ کے مسلم رائے دہندے طئے کرلیں تو بی جے پی کو کامیابی سے روکنا کوئی مشکل کام نہیں۔1