جامع مسجد عالیہ میں ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا تاریخ اسلام لکچر
حیدرآباد۔ 14 جولائی (پریس نوٹ) تاریخ کے جس مرحلے اور موڑ پر واقعہ کر بلا پیش آیا اس کے غائر مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جب اسلام کا نام لینے والے ہی اسلام کی مہتمم بالشان عمارت کو ڈھاکر اپنی پسند اور مرضی کے مطابق حکومت اور معاشرہ کی تشکیل کرنے کی مذموم سازش رچا رہے تھے ایسے نازک وقت سیدنا امام حسین ؓ کی دور اندیش نگاہوں نے محسوس کیا کہ اگر اس موقع پر خاموشی اختیار کی جائے تو اسلام کی روح ختم ہو جائے گی اور دنیا میں صرف رسمی اسلام باقی رہ جائے گا۔ اس لئے آپ نے فیصلہ کیا کہ خلافت کے نام پر ملوکیت کو رواج دینے والوں کے خلاف اٹل موقف اختیار کیا جائے۔ اسی کے نتیجہ میں واقعہ کربلا پیش آیا۔ جہاں امام حسین ؓ نے اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ اسلام کی بقاء کے لئے شہادت کی منزل کو طے کیا۔ امام حسین ؓ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاکر میدان کار زار میں نہ آتے تو آج اسلام کی ہیت بدل گئی ہوتی۔ اہل اسلام ہر معاملہ میں باطل طاقتوں سے سمجھوتہ کرلیتے اور مصلحت کے نام پر حق کے راستے سے منہ موڑ لیتے ۔ امام حسین ؓ نے اپنی شہادت کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ باطل چاہے کتناہی زور آور اور طاقتور ہو اس کے خلاف حق کے علمبرداروں کو اٹھنا ہوگا ورنہ دنیا میں ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہوگا۔ امام حسینؓ کی شہادت دراصل جبر و استبداد کے خلاف اعلان جنگ تھی۔ آپ کی شہادت نے انسانیت کو وہ عزم و حوصلہ دیا کہ آج مظلوم، ظالم کے خلاف کم از کم صدائے احتجاج بلند کرسکتا ہے۔ امام حسین ؓ کی شہادت دنیا کے تمام مظلوموں کے لئے مشعل راہ ہے۔ واقعہ کربلا سے درس بصیرت لے کر دنیا سے ظلم اور بربریت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، سابق اسوسی ایٹ پروفیسر سیاسیاست نے جامع مسجد عالیہ گن فاؤنڈری کے کانفرنس ہال میں تاریخ اسلام کا 1051 واں لکچر بعنوان ’’واقعہ کربلا کی معنویت‘‘ پردیا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کربلا کی معنویت ہر دور میں رہی ہے۔ جب کبھی یزیدی طاقتیں حق کو ملیامیٹ کرنے کے لئے اٹھیں گی واقعہ کربلا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے حق کے علمبردار باطل سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار رہیں گے۔ امام حسین ؓ نے اپنی شہادت سے یہی درس دیا کہ دین کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور جو کوئی دین سے کھلواڑ کرے گا اس سے کوئی راہ و رسم نہیں رکھی جائے گی بلکہ اس سے پنجہ آزمائی ہوگی۔ آج جب کہ باطل طاقتیں اپنے پھونکوں سے اسلام کے چراغ کو بجھانا چاہتی ہیں ایسے جاں گسل حالات میں داعیان اسلام کو دین پر استقامت کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کا تحفظ کرنا ہوگا۔ دنیا میں ظلم و جور کا جود ورچل رہا ہے اس کے خاتمہ کے لئے واقعہ کربلا سے سبق لیتے ہوئے امت مسلمہ کو اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ خاص طور پر فلسطین کے ہولناک واقعات امت مسلمہ کو آواز دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اہل حق کا ساتھ دیں۔ محفل کا آغآز قرأت کلام پاک سے ہوا۔ جناب انعام احمد نے مقرر کا تعارف کرایا اور آخر میں دعا کی۔