ہر شب کی سحر ہوجاتی ہے

   

محمد عثمان شہید، ایڈوکیٹ
ابتداء آفرینش سے ابن آدم مظلوم کی بدعا خالی نہیں گئی۔ مظلوموں کی بددعا ہمیشہ آسمان کے دامن کو چھید کرتی ہے۔ جس کے نتائج بڑے بھیانک نکلے ہیں اور نکلتے ہیں۔ ان نتائج نے تاریخ پلٹ دی بلکہ نئے سرے سے تاریخ لکھی ہے۔ اسی تاریخ نے کبھی خزاں کو گلستان میں بہار کا لبادہ پہنا دیا،کبھی ہواؤں اور طوفانوں کے زور سے اُکھاڑ کر پھینک دیا، پھر بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا گیا۔ انسانوں کی تاریخ کو افسانوں کا مجموعہ سمجھ کر ردی کے حوالے کردیا گیا۔ کاش! سمجھ کر پڑھتے تو معلومات میں اضافہ ہوتا اور مستقبل سنور جاتا اور مستقبل میں سبق ملتا کہ ایک بادشاہ نمرود تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ اپنی سلطنت کی وسعت ، فوج کی تعداد ، تلوار شمشیر کے ذریعہ ابراہیم علیہ السلام کے اللہ کو عبادت کے لائق نہ سمجھا اور ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے ایسی آگ روشن کی، وہ سیاہ پڑگئی اور میلوں اوپر اُڑنے والا پرندہ بھی اُس کی شدت سے جھلس گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو ایسی بھیانک آگ میں گوپھن کے ذریعہ پھینکا گیا۔ یہ مظلوم خاموش بیٹھ گئے۔ یہ خود بھی تماشہ تھے اور خود ہی تماشائی، فرشتے بھی دم بخود تھے۔ اللہ کے حکم کے منتظر اور اللہ دیکھ رہا تھا، بندے کے صبر کا امتحان لے رہا تھا کہ کب صبر ہاتھ سے چھوٹتا ہے۔ بندہ صابر تھا، اپنے صبر کا خود بھی امتحان لے رہا تھا۔ ادھر اللہ منتظر تھا کہ کب بندہ اللہ کو مدد کیلئے پکارتا ہے۔ ایسی آگ میں کھیل کود اور مذاق نہیں تھا۔ ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بلآخر رحمت خداوندی جوش میں آئی ۔ آگ کو حکم ہوا: ’’ائے آگ ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈی ہوجا‘‘ اور آگ گلزار بن گئی اور بندے کو صبر کا پھل مل گیا اور کائنات کو سبق۔ نمرود کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں۔
اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں
کچھ نا دوا نے کام کیا
اپنی سلطنت اپنے جاہ ہشم کے ساتھ اللہ کی طاقت کے آگے سیاہ روح ہوگیا۔ اللہ نے ثابت کردیا کہ نمرود کی سلطنت سرکش فوج، طاقت، لاٹھی، بندوق، تلوار اور شمشیر مچھر کے پر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جب وہ عذاب نازل کرنے پر آتا ہے تو پھر اس کے عذاب کی کوئی حد نہیں۔ قوم نوحؑ، قوم صالح ؑ، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط ؑکو ایسے تباہ کیا جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ انہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ وہ طاقتور تھے، حاکم تھے، مال و دولت بھی رکھتے تھے، سب کچھ مٹی میں مل گیا، تمام قومیں ہتھیاروں سے لیس تھیں، اقتدار اور دولت کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
نمرود کے بعد پھر وہ فرعون کے روپ میں ظاہر ہوا۔ اس نے ظلم کی نئی داستان لکھی اور بنی اسرائیل پر ظلم کے پہاڑ توڑے پھر اللہ کو جلال آیا، مظلوم کی آواز موسیٰ علیہ السلام بن کر ظاہر ہوئی۔ فرعون نے انسانی آزادی تلف کردی تھی۔ انسانی حقوق مٹا دیئے تھے، جب اس کے نجومی نے ایک ایسے بچے کی آمد کی خبر دی جو اس کی سلطنت کو مٹا دے گا تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا جس سے 70 ہزار بچے مارے گئے، لیکن حق کا چراغ روشن ہوکر رہا۔ موسیٰ علیہ السلام خود اس کے گھر پرورش پائے اور فرعون کے اقتدار کو للکارا۔ مظلومین کی مدد کیلئے کھڑے ہوگئے۔ جادوگروں کا مقابلہ کیا، نقلی اژدھوں کا قلع قمع کیا۔ آخر میں رحمت خداوندی نے جوش دیکھا یا دریائے نیل نے موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کو راستہ دیا تو فرعون اور اس کی ایک لاکھ سے زائد فوج کو غرق کردیا گیا۔ فرعون کے پاس بادشاہت تھی، کیا نہ تھا، کچھ کام نہ آیا۔ اس کے ظلم کی کشتی ڈوب گی۔ آج بھی ظالم فرعون کی نعش چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ انسانو! مجھے دیکھو! میری بے گور و کفن نعش کو دیکھو، میرے ساتھ فوج تھی، خدام تھے، ملازم تھے، جاہ ہشم تھا۔ سب بیکار ہوگیا۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی کے آگے کچھ نہ چلی۔ ایسی عبرت ناک حالت فرعون کو دیکھ کر بھی اگر انسانوں نے سبق نہ سیکھا تو وہ اپنی تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ اسی طرح قارون کے پاس اتنی دولت تھی کہ 40 اُونٹوں پر کنجیاں جاتی تھیں۔ اللہ نے اس کا بھی انجام ایسا برا کیا کہ مال و دولت کے ساتھ قارون کو زمین دوز کردیا۔
ہامان نے ایسی جنت تعمیر کی جس میں سونا ہی سونا تھا۔ کیا ہوا؟ جنت کے افتتاح کے دن ہی وہ اپنی جنت کے ساتھ دفن ہوگیا اور یوں اللہ نے ثابت کردیا کہ ظلم کی ہوا زیادہ دیر نہیں چل سکتی اور ہر شب کی سحر ہوجاتی ہے، ظلم کی عمر کم ہوتی ہے۔
اللہ نے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا، کشتی نوح کی حفاظت کی، وہی اللہ قائم ہے، برحق ہے، دیر ہے، اندھیر نہیں۔ قلع الموت کے شیخ نے جنت تعمیر کی تھی جہاں قاتل تیار کئے جاتے تھے۔ آدھے دھڑ سے مظلوموں کو دفن کرکے باقی دھڑ پر شہد لیپ دیا جاتا تھا اور چیونٹیاں چھوڑ دی جاتی تھیں۔ آخر میں ہلاکو کے ذریعہ اللہ نے ظلم کا چراغ بجھا دیا اور ہمیں تاریخ کے ان واقعات کی روشنی میں سبق لینا ہے۔ ظلم خواہ کوئی کرے، کیسا بھی ہوا، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، صبر اور شکر سے کام لیں، نماز سے فائدہ اٹھائیں جیسا کہ حکم دیا گیا ہے۔ دیکھو مسلمانو! سری لنکا کا حشر کیا ہوا۔ وہ بی جے پی کی پالیسی پر گامزن تھا۔ اس نے بھی انسانی حقوق و اُصولوں کا مذاق اڑایا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوشحال ریاست تباہ و تاراج ہوگئی اور صدر سری لنکا ملک سے فرار ہوگیا۔
اب آیئے! ہندوستان کی طرف، ظلم یہاں بھی پھلتا پھولتا دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی حجاب کے نام پر، کبھی پرسنل لا کے عنوان پر، کبھی گھر واپسی کے عنوان پر، کبھی طلاق ثلاثہ کو مذاق بناکر تو کبھی قربانی کے نام پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں اور اب سرکار دوعالمؐ پر (نعوذباللہ) تہمت لگائی جارہی ہے تاکہ ہندوستان کو ہندو دیش (ہندو راشٹر) بنایا جائے اور ہماری ہمت کو پست کردیا جائے۔ ہم کو دل سے شکر کرنا چاہئے کہ ہم آج مسلمان باقی ہیں۔ کبھی ایمان کی نعمت کو یاد رکھ کر، کبھی قرآن کی نعمت کو سامنے رکھ کر، کبھی نماز کی نعمت پر، ان حالات کے مدنظر ناشکری نہ کریں۔ نہ ظلم پر، نہ اپنی ناقدری پر، نا بے بسی پر اور نہ ہی کمزوری پر۔
چھری اسمعیل علیہ السلام کو نہیں کاٹ سکی، آگِ نمرود ، ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلا سکی، مچھلی یونس علیہ السلام کو نہیں نگل سکی۔ پانی نے موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ڈبویا۔ اللہ پر توکل کرو، بے شک اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ اس کیلئے ہماری قربانیاں بھی لازم ہیں۔ مظلوموں نے ظلم سہہ کر اللہ کا قرب حاصل کیا ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ اللہ ہی مددگار ہے اور انشاء اللہ وہی مدد کرے گا۔ بقول علامہ اقبالؔ
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آسان نہیں مٹانا ، نام و نشاں ہمارا