نئی دہلی، 28 ستمبر (یو این آئی) اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے مطابق دنیا بھر میں ہر شخص سالانہ 79 کلوگرام خوراک ضائع کرتا ہے اور 99 فیصد لوگ ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جو غیر محفوظ ہے ۔یہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی، بھوک اور صحت کے خطرات میں اضافہ کررہے ہیں۔ 29 ستمبر کو خوراک کے ضیاع اور بربادی سے آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 دسمبر 2019 کو ایک قرارداد منظور کی، جس میں خوراک کے ضیاع اور بربادی سے آگاہی کا عالمی دن (آئی ڈی اے ایف ایل ڈبلیو) قرار دیا۔یواین ای اپی کے مطابق، فضائی آلودگی اور خوراک کا ضیاع اور بربادی ہمارے وقت کے دو سنگین ترین عالمی چیلنجز ہیں۔ یہ مل کرموسمیاتی تبدیلی، صحت عامہ کے مسائل اور خوراک کی عدم تحفظ کو مزید بڑھادیتے ہیں۔ زمینی سطح پر موجود ایک بڑی فضائی آلودگی اوزون جو براہ راست فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے پیداوار متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی غذائی اجناس کی بربادی لینڈ فلز میں میتھین کا اخراج پیدا کرتی ہے ، جس سے فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں مزید خراب ہوتی ہیں۔یواین ای پی کا مقصد خوردہ اور صارفین کی سطح پر فی کس عالمی خوراک کی بربادی کو نصف کرنا نیز پیداوار اور سپلائی چین میں خوراک کے نقصانات کو کم کرنا ہے ۔دنیا کی آبادی اس وقت 8.2 ارب ہے اور 2050 تک 9.7 ارب تک پہنچنے کی توقع ہے ۔ یواین ای پی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ موجودہ اور مستقبل کی آبادی کو مناسب غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی حاصل ہو۔
یواین ای پی کے مطابق، 2021 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 1.25 ارب ٹن خوراک کٹائی کے بعد اور خوردہ دوکانوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو گئی۔ عالمی خوراک کے فضلے کا 60 فیصد حصہ گھروں میں برباد ہوتا ہے ۔ خوراک کی کمی اور فضلہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 8 سے 10 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔زرعی خوراک کے نظام میں اختراعات کو اپنانے سے خوراک کے ضیاع اور برباری کو روکنے ، کم کرنے اور دوبارہ استعمال کرنے کے لیے ایک سرکلر اکانومی کو فروغ ملے گا۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے ، جس سے معاش میں بہتری آئے گی اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے لیے معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے ۔