روش کمار
نریندر مودی حکومت نے پاکستان کے پروپگنڈہ، اس کی دہشت گردی اور ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کو بے نقاب کرنے حکمراں و اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمان، مرکزی وزراء، سابق مرکزی وزراء اور سابق ارکان پارلیمان (جن کی تعداد 59 ہے) پر مشتمل 7 وفود کو متعدد ملکوں کے دوروں پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس معاملہ میں یعنی دوروں میں شامل رہنے والے سیاستدانوں کی جو فہرست منظرعام پر آئی ہے، اس کو لیکر کانگریس کے بشمول اپوزیشن جماعتوں میں برہمی پائی جاتی ہے۔ بہرحال پہلے ہم بات کرتے ہیں وزیراعظم نریندر مودی کے بیرونی دورو کی جن بیرونی دوروں کو کامیاب بتا کر پیش کیا جارہا تھا اب ان ہی پر سوال اٹھنے لگا ہے۔ عوام بھی سوال کررہے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے 11 سالہ دوراقتدار میں تابڑتوڑ بیرونی ردورے کئے۔ اس کا نتیجہ ہندوستان کیلئے کیا نکلا؟ کانگریس اسے لیکر سوال اٹھارہی ہے۔ بیرونی دوروں کیلئے منتخب کی گئیں شخصیتوں کے نام کو لیکر جو سیاست شروع ہوئی اسی کے بہانہ اب کانگریس ان سوالوں پر آگئی ہے۔ ریلوے کے ٹکٹ پر بھی آپریشن سندور اور وزیراعظم کی تصویر کو لیکر تنازعہ پیدا ہوگیا ہیکہ کیا یہ سب سیاست نہیں ہے۔ اس تصویر میں بھی تینوں افواج کے سربراہو کی تصاویر نہیں ہیں۔ وزیراعظم مودی ہی سیلوٹ کررہے ہیں۔ کانگریس ترجمان سپریہ شرنیت نے سوال اٹھایا ہے کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کو اس مسئلہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، ان سے میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپریشن سندور کے پوسٹر پر، بی جے پی کے سوشل میڈیا پر، ریل ٹکٹ پر اور ہورڈنگس پر نریندر مودی اپنی تصویر شائع کرواکر کمانڈو بنے کھڑے ہیں کیا وہ سیاست نہیں ہے؟ کامیابی فوج کی لیکن فوٹو اور پوسٹر میں صرف مودی، کیا یہ سیاست نہیں ہے۔ ان تصویروں کا یہی مطلب ہیکہ بی جے پی کو اس آپریشن کا سیاسی فائدہ جلد سے جلد حاصل کرنا ہے ورنہ فوج کے تینوں سربراہوں کی تصاویر ہوتی یا کم از کم ان فوجیوں کی تصاویر ہوتی جو ملک کیلئے شہید ہوئے ہیں مگر صرف ایک اور ایک چہرہ وزیراعظم مودی کا دکھایا جارہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی چہرہ وزیراعظم نریندر مودی کا۔ خیال رہے ان دوروں کے اس حساب میں وزیرخارجہ ایس جئے شنکر کے دورے شامل نہیں کیونکہ ان کا کام ہی ہے خارجی تعلقات کے معاملہ میں دورے کرنا لیکن جس طرح سے وزیراعظم مودی دورے کرنے لگے اس سے محسوس ہونے لگا کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کا چہرہ صرف وہی ہیں۔ سوال پوچھا جارہا ہیکہ آپریشن سندور کے بعد ارکان پارلیمان کی 7 ٹیموں کو 32 ملکوں میں کیوں بھیجا جارہا ہے۔ کیا وزیراعظم مودی کے بیرونی دورو سے کچھ نہیں ملا اگر نہیں ملا تو حکمراں و اپوزیشن کے 59 ارکان پارلیمان کی ٹیم کیا حاصل کرلے گی۔ عام طور پر خارجہ پالیسی کا گھریلو سیاست میں شمار نہیں ہوتا لیکن گھریلو سیاست میں وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں اور خارجہ پالیسی کو جم کر استعمال کیا جاتا ہے۔ گودی میڈیا اور بی جے پی نے گاؤں گاؤں تک ان دوروں کو کامیابی کی شکل میں پہنچایا ہے۔ اس لحاظ سے خارجہ پالیسی پر بات کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔ یہ اب دہلی سے نکل کر گاؤں میں پھیل گیا ہے جو عوام دوروں کو کامیابی سمجھ بیٹھی تھی وہی عوام پوچھ رہی ہیکہ ان دوروں کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایسا نہیں ہیکہ اپوزیشن نے پہلے سوال نہیں اٹھائے لیکن اس بار یہ سوال عوام سے بھی آرہا ہے کہ اتنے بیرونی دوروں کا فائدہ کیا حاصل ہوا؟ ہندوستان کیوں تنہا نظر آرہا ہے۔ کیوں پہلگام دہشت گردانہ حملے اور آپریشن سندور کے بعد کوئی ملک ہندوستان کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ سوال رہ رہ کر امریکی صدر ٹرمپ کی وجہ سے بھی اٹھتا جارہا ہے۔ وہ مسلسل ہندوستان کا نام پاکستان کے ساتھ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی تعریف کرتے ہیں کھل کر Appleکے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر سے کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ان کا پروڈکٹ تیار ہورہا ہے انہیں ایسا پسند نہیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑائی انہوں نے رکوائی۔ تجارت کے معاملہ کو لیکر دھمکی دی جس کے بعد لڑائی رک گئی۔ ہندوستان نے سفارتی چینل سے اس سے انکار کیا ہے لیکن عوام اب نوٹ کرنے لگی ہیکہ ٹرمپ جب بھی ہندوستان کو لیکر کچھ بولتے ہیں، وزیراعظم کچھ بھی نہیں کہتے۔ ہندوستانی شہریوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر امریکہ نے ہندوستان واپس بھیج دیا تب بھی وزیراعظم مودی نے کچھ نہیں بولا۔ وزیرخارجہ نے بھی خاموشی اختیار کی جبکہ ان ہی ٹرمپ کو مائی فرینڈ کہا جاتا رہا۔ گودی میڈیا میں اس وقت جشن کا ماحول تھا جب ٹرمپ دوسری مرتبہ کامیاب ہوئے۔ گودی میڈیا کو لگا کہ ایک اور دوست کامیاب ہوگیا ہے۔ قطعی جشن کے ذریعہ ہندوستانیوں کو جھانسہ دیا گیا کہ ٹرمپ کی جیت مودی کی ہی کامیابی ہے اور اب جب ٹرمپ اپنے حساب سے چلنے لگے ہی تو گودی اینکرس بتارہے ہیں کہ ٹرمپ کوئی معنی نہیں رکھتے اگر ٹرمپ اتنے ہی غیراہم ہوچکے ہیں تب پھر وزیراعظم مودی ان کے بیان کا جواب کیوں نہیں دے پاتے۔ اسی وقت ٹوئیٹ کردیتے کہ کشمیر پر کوئی مداخلت قبول نہیں ہوگی آپ کا شکریہ! یہاں تو ٹرمپ کریڈٹ پر کریڈٹ لئے جارہے ہیں کہ انہوں نے لڑائی رکوائی اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جارہا۔ اگر ٹرمپ اب گودی میڈیا کیلئے کچھ بھی نہیں ہیں تو انکار کردیجئے۔ ہوا یہ ہیکہ خارجہ پالیسی کو لیکر ہندی کے اخبارات میں اور ہندی کے چینلوں میں خوب لکھا گیا۔ خوب دکھایا گیا۔ یکطرفہ کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ بیرونی دوروں کو ہی ملنے جلنے کی تصویروں کے سہارے ہی کامیابی کا مظاہرہ کیا گیا۔ آج اس عوام کو یقین نہیں ہورہا ہیکہ جس خارجہ پالیسی کو اس نے کامیابی کی شکل میں قبول کرلیا تھا، ہندوستان کے اپوزیشن ارکان پارلیمان کی مدد اب کیوں لی جارہی ہے۔ اتحاد کا ہی مظاہرہ کرنا تھا تو ٹی ایم سی سے پوچھے بغیر یوسف پٹھان کا نام کیوں شامل کیا گیا۔ یوسف پٹھان اس سیاست کو سمجھ گئے اور خود کو الگ کرلیا۔ جب اسے لیکر ممتابنرجی نے کچھ کہا تب جاکر حکومت نے اب پارٹی سے پوچھا ہے اور ابھیشیک بنرجی کے نام کی پارٹی کی طرف سے سفارش کی گئی یہی الزام تو کانگریس نے لگایا ہے کہ ششی تھرور کا نام کانگریس نے نہیں دیا تو بناء پوچھے کیوں شامل کیا گیا۔ ششی تھرور ہی نہیں کانگریس سے پوچھے بغیر منیش تیواری کا نام بھی دے دیا گیا۔ کیا یہ سیاست نہیں تھی۔ ترنمول کانگریس سے پوچھا نہیں۔ یوسف پٹھان کا نام دے دیا۔ کانگریس سے پوچھا اور جو نام دیئے گئے انہیں شامل نہیں کیا گیا اور اب گوگوئی، سید نصیر حسین اور امریندر سنگھ راجہ وارنگ کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے دیئے گئے چار ناموں میں سے صرف ایک نام ہی حکومت نے قبول کیا۔ ظاہر ہے جب اس طرح کی سطحی سیاست ہوگی تو کانگریس بھی سوال کرے گی کہ آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ جس طرح سے ششی تھرور کا نام دیکر کانگریس کو چڑانے کی کوشش کی گئی اسی طرح کانگریس بھی وفود میں جانے والے ارکان پارلیمان کے ناموں کو لیکر سوال کرنے لگی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ششی کانت دوبے کا کچھ ہی دن پہلے سپریم کورٹ میں وقف قانون کی سماعت پر بیان تھا کہ سپریم کورٹ خانہ جنگی کیلئے ذمہ دار ہوگی۔ ان کے اس بیان پر سپریم کورٹ نے انہیں پھٹکار لگائی ہے۔ بہرحال آپ کو بتاتے ہیں کہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تصویروں کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ بی جے پی کی طرف سے جاری فوٹو کے جواب میں کانگریس کی بھی تصویر آگئی ہے۔ دونوں فوٹوز کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ان میں ہندوستان کے لیڈروں کا تقابل یا ان کے چہرہ کا استعمال پاکستان کے لیڈروں کے ساتھ کیا گیا ہے کہاں تک یہ معاملہ جائے گا کوئی نہیں جانتا لیکن لگتا ہیکہ آپریشن سندور کی کامیابی کو INCASHکرنے میں کامیابی مل نہیں رہی ہے یا بتانے میں کامیابی نہیں مل رہی ہے تو اب اپوزیشن کو پھر سے اس سانچہ میں فٹ کیا جارہا ہے جس سانچہ میں فٹ کرکے اسے نکسل، دیش دروہی کہا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر کیلئے محسوس ہوا کہ اپوزیشن کی واپسی ہوئی ہے۔ حکومت کو اپوزیشن دکھائی دینے لگا ہے لیکن اب پھر سے بی جے پی اپوزیشن کو دیش دروہی، میر جعفر اور غدار بتانے میں جٹ گئی ہے۔ طریقہ وہی ہے اپوزیشن کی ساکھ خراب کرتے رہو تاکہ اپوزیشن کے سوالوں پر عوام یقین نہ کرے۔ اس تمام معاملہ کی جڑ میں ہے کیا؟ آپ کوب تادیں کہ 20 مئی کو بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں پاکستان کے فوجی سربراہ عاصم منیر میں راہول گاندھی اور راہول گاندھی میں عاصم منیر کی شبیہہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تصویر سے کانگریس بھڑک گئی ہے اور قانونی کارروائی شروع کی۔ بی جے پی کو اس طرح کی تصویر سے جواب دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ظاہر ہے کانگریس کی طرف سے ردعمل تو آنا ہی تھا جس طرح بی جے پی نے راہول گاندھی اور عاصم منیر کی تصویر مکس کی اسی طرح سے بہار کانگریس نے نواز شریف اور وزیراعظم مودی کا فوٹو ملادیا اس فوٹو پر لکھا ہے ایک بریانی دیش پر بھاری۔ اس تصویر کے پیچھے مودی کے ڈسمبر 2015ء کا دورہ پاکستان ہے۔ 25 ڈسمبر 2015ء کی دوپہر افغانستان سے واپس ہوتے ہوئے وزیراعظم مودی نے ٹوئیٹ کیا کہ میں لاہور سے ہوتا ہوا نئی دہلی جاؤں گا اسی دن نواز شریف کی سالگرہ بھی تھی تب سے ہی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ مودی نے کیا نواز شریف کے ساتھ بریانی کھائی تھی۔ ایک بات ضرور ہیکہ بی جے پی کانگریس کے سوالوں کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔