بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت کے مسلم پروفیسر کیخلاف طلبہ کا احتجاج نامناسب ، عربی زبان کی ہندو لیکچرر کا ردعمل
نئی دہلی۔22 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ودیا دھرم وگیان میں ایک مسلم پروفیسر فیروز خاں کے تقرر کے خلاف دائیں بازو کے شدت پسند ہندو طلبہ کے احتجاج پر کیرالا کی ایک برہمن خاتون گوپالیکا انتاراجنم جو اپنی ریاست میں تقریباً 30 سال تک عربی زبان کی تدریس کے بعد وظیفہ پر سبکدوش ہوئی ہیں کہا کہ ہر کسی کو کسی بھی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اس کو پڑھانے کا حق حاصل ہے۔ گوپالیکا نے کہا کہ ہندوستان مختلف زبانوں اور بولیوں کے ورثے سے مالا مال ایک کثیر معاشرتی ملک ہے۔ کثرت میں وحدت اس کی انفرادیت ہے۔ ہندوستان میں ہر شہری کو کوئی بھی زبان میں پڑھنے اور پڑھانے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ عربی ایک خوبصورت زبان ہے جس کی بدولت وہ اس کو سیکھنے کی طرف راغب ہوئی تھیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اس زبان کو بحیثیت ٹیچر پڑھانے لگی تھیں۔ درس و تدریس کے ایک حصہ کے طور پر قرآن مجید کا کچھ حصہ بھی پڑھا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اکثر طالبعلم مسلم ہی تھے اور میری عربی کلاسس میں سبق کی سماعت پر خوش ہوا کرتے تھے۔ حتی کہ ان کے والدین بھی میرا کافی احترام کیا کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مسلم اکثریتی ضلع ملاپورم میں 1982ء میں کیریئر کے آغاز کے وقت سب کچھ تو ٹھیک نہیں تھا۔ ایسے خوشگوار حالات نہ تھے ایک اسکول کی مخلوعہ جائیداد پر بھرتی ہوئیں، انتظامیہ اور طلبہ تو خوش تھے لیکن چند مقامی افراد کو یہ اعتراض تھا کہ ایک ہندو برہمن خاتون، مسلم بچوں کو آخر کس طرح عربی پرھاسکتی ہے؟ مقامی افراد نے طویل رخصت پر دبئی روانہ ہوچکے سابق ٹیچر کو واپس لانے کے لیے پیسے بھی جمع کیا تھا۔ ایک مقامی وکیل نے میرے تقرر کے خلاف عدالت میں مفاد عامہ کی درخواست بھی داخل کی تھی۔ 1989ء میں گوپالیکا کے حق میں فیصلہ آیا اور پھر انہیں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔