پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
گجرات فسادات میں جس طرح بلقیس بانو کو جنسی استحصال، بدسلوکی اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا، اس بدترین سلوک کا درد بلقیس بانو سے زیادہ کوئی اور انسان محسوس نہیں کرسکتا اور اب گجرات حکومت نے اس مظلوم خاتون کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شیرخوار بیٹی کے بشمول اس کے ارکان خاندان کو قتل کرنے والے مجرمین کو جس طرح معافی دے کر رہا کیا، وہ درد بھی بلقیس بانو سے زیادہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا۔ بلقیس بانو ایک خاتون ایک ماں کی حیثیت سے اُس وقت بھی ایک کربناک دور سے گذر رہی تھی اور آج بھی اپنے مجرمین کی رہائی کے باعث بھی درد و الم میں مبتلا ہوگئی ہے۔ مجرمین کی رہائی سے متعلق حکومت گجرات کے اقدام پر بلقیس بانو نے انتہائی سادہ سے لیکن دلوں کو چھونے والے، دلوں میں اترنے والے الفاظ ادا کرتے ہوئے ملک میں لاکھوں کروڑوں، غریبوں، امتیازی سلوک کا شکار دبے کچلے اور بنیادی حقوق سے محروم شہریوں کی حالت زار بیان کردی۔ اس نے کوئی چیخ و پکار نہیں کی، صرف اتنا کہا: ’’بناء کسی خوف کے جینے کا میرا حق مجھے واپس کردو‘‘
قاتلوں اور زانیوں کے سنسکار
بلقیس بانو کی المناک کہانی تاریخ کے صفحات میں بالکل محفوظ ہے۔ ایک ٹرین میں آتشزدگی کے بعد سال 2002ء میں ریاست گجرات فسادات کی لپیٹ میں آگئی، ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی، اس وقت بلقیس بانو کی عمر صرف 21 سال تھی۔ ایک لڑکی کی ماں بن چکی تھی اور 5 ماہ کی حاملہ تھی۔ شرپسندوں کے ایک ہجوم نے اس پر حملہ کردیا، اس کی اجتماعی عصمت ریزی کی اور ان ظالموں نے اس پر ہی اکتفنا نہیں کیا بلکہ بلقیس بانو کے سات ارکان خاندان بشمول اس کی 3 سالہ بیٹی کو بھی اس کی نظروں کے سامنے ہی قتل کردیا۔ خوش قسمتی سے وہ بچ گئی تاکہ ساری دنیا کو اپنی درد بھری کہانی سنا سکے اور یہ بتا سکے کہ گجرات میں سال 2002ء کے دوران کس طرح قانون سے کھلواڑ کیا گیا ،کیسے ایک کثیر تعداد میں انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر ذبح کیا گیا۔ بلقیس بانو نے اس قدر ظلم و جبر سہنے کے باوجود خاطیوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی چنانچہ ان قاتلوں اور زانیوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے اور پھر 11 ملزمین کو خاطی قرار دے کر سزائے عمر قید سنائی گئی اور پھر ایسا دن بھی آیا جب 15 اگست 2022ء کو وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے عوام کو بتا رہے تھے کہ ناری شکتی کیا ہوتی ہے اور آج ملک میں ’’ناری شکتی‘‘ کی کیا اہمیت و افادیت ہے، اُس کے چند گھنٹوں بعد گجرات کی ریاستی حکومت نے 11 خاطیوں یا مجرمین کی سزائے عمر قید معاف کردی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جشن یوم آزادی کے موقع پر ہی یہ مجرمین قید سے آزاد ہوگئے۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب ان مجرمین کی گلپوشی کرتے ہوئے انہیں مٹھائی کھلاکر اور ان کے پیر چھوتے ہوئے استقبال کیا گیا اور دوسری طرف ایک شخص نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اچھے سنسکار کے حامل برہمن ہیں۔
صحافی بھی خوف میں زندگی گذار رہے ہیں
اس سلسلے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ڈسمبر کی ایک سرد رات کے 10 بجے ایک صحافی کو فوری ایک او پی ویان تک پہنچ کر حسب معمول ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے متعلق اسکرپٹ پڑھنے کیلئے طلب کیا گیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ نے انکساری کے ساتھ وہاں جانے سے انکار کیوں نہیں کیا؟ تب جواب میں اس صحافی نے بتایا کہ ضعیف ماں باپ اس کے ساتھ رہتے ہیں، اسے اپنے فلیٹ کی ماہانہ اقساط جمع کروانی ہے۔ اگر وہ وہاں جانے سے انکار کرتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنی ملازمت سے محروم ہوسکتا ہے۔ بے شمار صحافیوں نے مجھے بتایا کہ انہیں مجبوراً اپنے اخبارات اور چیانلوں کی جانبداری و تعصب کی تائید و حمایت کرنی پڑتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان کی نوکری ان کا روزگار چلا جائے گا۔ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، ملازمت کے جانے کے خوف سے کررہے ہیں اور موجودہ حالت میں دوسری نوکری کا حصول مشکل ہے اور ان کے سامنے کئی ایک ممتاز صحافیوں، اینکرس اور ایڈیٹروں کی مثالیں موجوود ہیں جنہوں نے مصلحت سے کام لینے سے انکار کیا اور پھر ملازمتوں سے محروم ہوگئے۔
٭ خود میڈیا گھرانوں کے مالکین خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ سرکاری اشتہارات اچانک روک دیئے جاتے ہیں، یہ مالکین سوچتے ہیں کہ اگر وہ حکومت کے خلاف جائیں گے تب جو سرکاری اشتہارات ملا کرتے ہیں، وہ رُک جائیں گے اور پھر ان کے جو اخبارات یا چیانلس ہیں، ان کا انحصار صرف خانگی اشتہارات پر ہوجائے گا۔ ٭ صحافیوں میڈیا گھرانوں کی طرح بینکرس بھی خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں ، اس ضمن میں ہم نے ایک بینکر سے کہا کہ آیا اس کی بینک کو بڑے بڑے قرض کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور آیا وہ انہیں منظور کررہا ہے، اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ قریب کوئی موجود تو نہیں ہے اور پھر اسے یقین ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی نہیں، قریب آکر سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا کیوں سر!! میں اندرون 6 ماہ سبکدوش ہوجاؤں گا۔ ٭ شہریوں میں بھی خوف: ارکان پارلیمان بھی خوف میں مبتلا ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود بی جے پی ارکان پارلیمنٹ نے نجی طور پر ایک بل یا بل کی بعض دفعات یا پھر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کی معطلی کی مخالفت کی ہے، اس کی تازہ ترین مثالیں زرعی بلز کریمنل پروسیجر (آئیڈیفکیشن) بل اور بعض ارکان پارلیمان کی سارے ہفتہ یا مابقی سیشن تک معطلی ہے۔ ٭ وزراء میں بھی خوف: آج کل وزراء میں بھی خوف پایا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے خود کو اپنے معتمدین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دفتر وزیراعظم یا کابینی سکریٹریٹ سے ہدایات حاصل کرتے ہیں اور ان ہدایات کے مطابق ہی وزراء کے سامنے فائیلس پیش کرتے ہیں۔ وزراء کابینی سکریٹریٹ میں تیار کردہ کابینی نوٹس پر دستخط کرتے ہیں اور پھر انہیں کابینہ میں پیش کرنے کا بینی سیکریٹریٹ میں داخل کرتے ہیں ۔٭ کاروباری و تجارتی برادری میں بھی خوف : کاروباری حضرات اور تاجرین میں بھی خوف کا ماحول پایا جاتا ہے، ان میں صرف سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور انکم ٹیکس کا ہی خوف نہیں پایا جاتا بلکہ دوسری ایجنسیوں جیسے جی ایس ٹی ایڈمنسٹریشن، وی آر آئی ، ایس ایف آئی او، ایس ای بی آئی، سی سی آئی، این آئی اے اور این سی پی سے بھی خوف پایا جاتا ہے۔ ان تمام ایجنسیوں نے کاروباری حضرات و تاجرین پر ہیبت طاری کر رکھی ہے۔ ایم ایس ایم ایز جنہیں حکومت کی تھوڑی بہت مدد ملتی ہے، خوف میں جی رہے ہیں۔ مالی خسارے کو برداشت نہ کرتے ہوئے یہ اکائیاں ہمیشہ کیلئے بند ہورہی ہیں۔ ٭ طلبہ بھی NEET، CUET اور مرکز کے دوسرے امتحانات سے خوف میں مبتلا ہیں اور ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں آرہی ہیں، کسی کو پتہ نہیں کہ کون منتخب ہوگا، انتخاب کا معیار کیا ہوگا اور تعلیمی سال کب شروع ہوگا۔ ٭ غریب بھی بڑھتی مہنگائی سے خوف میں مبتلا ہیں، روزگار اور ملازمتوں سے محرومی کے خوف میں مبتلا ہیں۔