ہزاروں خانگی ٹیچرس سنگین صورتحال سے دوچار

   

Ferty9 Clinic

کوئی ڈرائیور تو کوئی ٹیلر بننے پر مجبور ، بعض بیڑی بنانے تو بعض تعمیری کاموں میں مشغول
حیدرآباد : کورونا بحران اور گذشتہ تین ماہ سے اسکولس بند ہونے کی وجہ سے خانگی اسکولس میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں ٹیچرس بیروزگار ہوگئے ہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ، تعمیری کاموں کی مزدوری کررہے ہیں ۔ کوئی ٹیلر بن گیا ہے تو کوئی آٹو چلانے پر مجبور ہے ، کوئی بڑھئی کا کام کررہے ہیں تو کوئی گھروں میں چھوٹے موٹے کرانہ شاپس لگا چکے ہیں ۔ کوئی ماسک بنا رہے ہیں ۔ شہر ہو یا اضلاع ہر مقام پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود خانگی ٹیچرس محنت مزدوری کے لیے مجبور ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خانگی ٹیچرس کے لیے راحت کے پیاکیج کا اعلان کریں ۔ ویسے تو ریاست میں 20 ہزار خانگی اسکولس ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ کمیونٹی اسکولس میں خدمات انجام دینے والے 10 ہزار خانگی ٹیچرس سنگین صورتحال سے دوچار ہیں ۔ تین ماہ سے اسکولس بند ہیں ۔ جس کی وجہ سے اسکولس انتظامیہ نے انہیں تنخواہیں بھی ادا نہیں کی ہے ۔ ارکان خاندان کی کفالت کے لیے خانگی ٹیچرس جو بھی کام مل رہا ہے وہ کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔ خانگی ٹیچرس کا کہنا ہے کہ ایسے بھی دن دیکھنے کی انہیں امید نہیں تھی ۔ شہر حیدرآباد میں کئی خانگی ٹیچرس دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ چند لوگ محنت مزدوری کررہے ہیں تو چند لوگ زرعی کاموں سے جڑ گئے ہیں ۔ کئی لوگ لکڑی فروخت کررہے ہیں ۔ آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن بنڈلہ گوڑہ کے سکریٹری عبدالصبور نے بتایا کہ شہر کے خانگی اسکولس میں کام کرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے وہ بہت زیادہ پریشان ہیں ۔ اپنے ہی گھروں میں سلوائی کا کام کررہی ہیں یا چھوٹے موٹے روزمرہ کی اشیاء کی ضروریات کی دوکانیں لگاتے ہوئے ماہانہ 5 تا 6 ہزار روپئے کی کمائی کررہی ہیں ۔ یہی صورتحال ساری ریاست میں ہے ۔ ضلع کریم نگر کے خانگی ٹیچرس کی صورتحال کے علاوہ دوسرے اضلاع سے بھی خانگی ٹیچرس کے مسائل کی رپورٹس وصول ہورہی ہیں جو انتہائی درد ناک ہے ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود خانگی ٹیچرس دوسرے کام کاج کرنے کے لیے مجبور ہورہے ہیں ۔ چند خانگی ٹیچرس سے کی گئی بات چیت سے پتہ چلا ہے کہ خانگی اسکولس انتظامیہ کی جانب سے مارچ تک کی تنخواہ ادا کی گئی ہے ۔ اس کے بعد سے تنخواہیں روک دی گئی ہیں کیوں کہ اسکولس ہی بند ہوچکے ہیں ۔ چند اسکولس سے ٹیچرس کو نکالنے کی شکایتیں وصول ہورہی ہیں تو چند اسکولس کی جانب سے بچوں کو اسکولس میں داخل کرانے کا ٹارگیٹ دیا جارہا ہے ۔ صرف 10 فیصد ٹیچرس کو آن لائن کلاسیس کی وجہ سے تنخواہیں مل رہی ہیں ۔ ایک خانگی ٹیچر بالا وینی رانی نے بتایا کہ وہ بی ایس سی بی ایڈ کی تعلیم مکمل کر کے ایک اسکولس میں 10 سال سے خانگی ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکولس بند ہونے کی وجہ اسکول انتظامیہ نے اپریل سے تنخواہ ادا نہیں کی ۔ ارکان خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے ٹیلرنگ کا کام کررہی ہیں ۔ خانگی ٹیچر نوشین نے بتایا کہ اس نے ایم اے بی ایڈ کی تعلیم حاصل کی ہے اور ایک خانگی اسکول میں 6 سال سے کام کررہی ہیں تین ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے بیڑی بنانے کا کام کررہی ہیں ۔ ایسی صورتحال سے دوچار ہونے کا انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سونچا تھا ۔ پی سرینواس خانگی ٹیچر ہے انہوں نے بتایا کہ وہ کورونا کے باعث زیادہ فروخت ہونے والے ماسک تیار کررہے ہیں ۔ خانگی ٹیچرس ونئے کمار نے بتایا کہ وہ تعمیری کاموں سے وابستہ ہوجانے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔