ہماری لڑائی زمین کیلئے نہیں قانونی حق کیلئے رہی:ارشد مدنی

,

   

سپریم کورٹ نے قبول کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو ڈھاکر نہیں بنائی گئی تھی، اس کے باوجودموجودہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر

نئی دہلی/ ممبئی ۔ 13 ۔ نومبر (سیاست ڈاٹ کام) جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے آج کہا کہ مسلم برادری نے 70 سال تک ایودھیا کیس زمین کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے حق کیلئے لڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاضل عدالت کے حکمنامہ کے خلاف مرافعہ داخل کرنے کے بارے میں فیصلہ جمعرات کو جمیعت کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا ۔ جمیعت اس کیس کے فریقوں میں سے رہی ہے۔ زائد از ایک صدی قبل کے پیچیدہ مذہبی و ملکیتی مسئلہ کی یکسوئی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہفتہ کو اپنے فیصلہ میں بابری مسجد۔رام جنم بھومی ملکیت کیس کے تحت ساری 2.77 ایکر متنازعہ اراضی رام للا کے حق میں دے دی جو کیس کے تین فریقوں میں سے ہے۔ پانچ ججوں کی دستوری بنچ نے مرکز کو یہ ہدایت دی کہ ایودھیا میں ایک مسجد کی تعمیر کیلئے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ کا پلاٹ حوالے کیا جائے۔ مولانا مدنی نے شریعت کے حوالے سے کہا کہ بابری مسجد اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جیسے ملک کی کوئی بھی دیگر مسجد ۔ انہوں نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ شریعت میں صرف تین مساجد زیادہ اہمیت کی حامل ہے جو مکہ میں مسجد حرام ، مدینہ میں مسجد نبویؐ اور یروشلم میں بیت المقدس ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانچ ایکڑ زمین کی ہی خواہش ہوتی تو ہم 70 سال یہ کیس نہیں لڑے ہوتے۔ مسلمانوں کے پاس معقول زمین ہے۔ ہم نے ہماری زمینوں پر مساجد تعمیر کئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی گئی ہے۔ اگر یہ ہمیں دی جاتی تو ہم اس کو ٹھکرا دیئے ہوتے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ لڑائی اصولوں اور حقوق کی ہے۔ پہلے کبھی ہندو بھگوانوں کی مورتیوں کو کسی مسجد میں نہیں رکھا گیا اور نہ کسی مسجد کو ڈھایا گیا تھا۔ خود سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی ہے۔ عدالت نے یہ سب باتیں قبول کئے ہیں، اس کے باوجود اراضی ہندو فریقوں کو سونپ دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم نے عدالت کے سامنے تمام ثبوت رکھے تھے اور امید تھی کہ وہ ان ثبوتوں کی اساس پر کوئی فیصلہ کرے گی نہ کہ اعتقاد کی بنیاد پر۔ لیکن عدالت نے اپنا فیصلہ اعتقاد کی اساس پر سنایا ہے۔ ملک کے مسلمانوں کو عدلیہ پر بھروسہ ہے اور وہ اس فیصلہ کا پھر بھی احترام کرتے ہیں۔ صدر جمیعت نے کہا کہ مسلمان کیلئے خوشی کی بات ہے کہ عدالت نے قبول کیا کہ انہوں نے بابر کی حکمرانی کے دوران کسی مندر کو ڈھاکر بابری مسجد تعمیر نہیں کی تھی۔ اس فیصلہ کے بارے میں مسلم برادری کی رائے کے تعلق سے پوچھنے پر مولانا مدنی نے کہا کہ اس قسم کے فیصلہ کے باوجود مسلمانوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور اپنے جذبات قابو میں رکھے ، جو اچھی بات ہے ۔