ہماری ہر گواہی ٹوٹ جاتی ہے عدالت میں

,

   

کشمیر حکومت … راہول گاندھی کا غیر معمولی فیصلہ
مسجد میں نعرہ بازی کو عدالت کی منظوری ؟
عدالت میں انصاف کی دیوی سے ناانصافی

رشیدالدین
مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں انتخابی بگل بج چکا ہے ۔ جموں و کشمیر اور ہریانہ میں نئی حکومتوں کی تشکیل کے دوران الیکشن کمیشن نے دو ریاستوں کا شیڈول جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کی تکمیل میں سنجیدہ ہے یا پھر بی جے پی کو ہریانہ کی طرح مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں کامیابی کی جلدی ہے ۔ جس طرح الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مدد سے بی جے پی نے ہریانہ میں ہیٹ ٹرک کی ، ٹھیک اسی طرح مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں زعفرانی پرچم لہرانے کا خواب ہے۔ دراصل بی جے پی لوک سبھا چناؤ کی شکست سے ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں عوام نے بی جے پی کو اکثریت سے محروم کرتے ہوئے حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر انحصار کے لئے مجبور کردیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے ایک طرف ون نیشن ون الیکشن سے متعلق رامناتھ کووند کمیٹی کی سفارشات کو منظوری دے دی تو دوسری طرف ریاستوں کی اسمبلیوں کے چناؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ شائد رامناتھ کووند کمیٹی کی سفارشات کو آئندہ لوک سبھا انتخابات کے وقت عمل آوری کے لئے رکھا گیا ہے۔ لوک سبھا نتائج نے بی جے پی کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا لیکن ہریانہ کی کامیابی نے حوصلوں کو دوبارہ بلند کردیا ہے ۔ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے چناؤ بی جے پی اور انڈیا الائنس کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ جس طرح انڈیا الائنس میں پھوٹ پیدا کرتے ہوئے مہاراشٹرا کے اقتدار پر قبضہ کیا گیا تھا ، وہی اس مرتبہ اہم انتخابی موضوع بن سکتا ہے۔ شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس سے انحراف کے ذریعہ بی جے پی نے مہاراشٹرا پر حکومت پر کرتے ہوئے یہ گمان کرلیا ہے کہ باغیوں کو عوام معاف کردیں گے۔ دونوں ریاستوں میں انڈیا الائنس کی برتری صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے اور کانگریس قائد راہول گاندھی کی صلاحیتوں کا یہ امتحان رہے گا۔ ہریانہ میں داخلی گروہ بندیوں پر کنٹرول میں ناکامی کا خمیازہ کانگریس کو شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا اور رہی سہی کسر ووٹنگ مشینوں نے پوری کردی۔ کیا مہاراشٹرا میں کانگریس ، شیوسینا اور این سی پی متحدہ طور پر مقابلہ کرپائیں گے ؟ نشستوں کی تقسیم کے دوران کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی، کہنا مشکل ہے۔ مہاراشٹرا کے عوام توڑ جوڑ سے بنائی گئی حکومت سے بیزار ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ لوک سبھا چناؤ میں عوام کا رجحان واضح ہوچکا ہے اور وہ شیوسینا کے طور پر ادھو ٹھاکرے اور این سی پی سربراہ کی حیثیت سے شرد پوار کو تسلیم کرتے ہیں ۔ دونوں ریاستوں میں سیکولر رائے دہندے بی جے پی کو سبق سکھانے تیار ضرور ہیں لیکن سوال اپوزیشن اتحاد کا ہے ۔ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے رائے دہندے طئے کریں گے کہ ہریانہ کے بعد بھی بی جے پی کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے گا یا بریک لگ جائے گا۔ ملک کے موجودہ حالات میں اصولوں اور اقدار پر قائم رہتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی آج بھی اقدار اور اصولوں کی پاسداری کر رہی ہے ۔ گاندھی خاندان نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے معاملہ میں اس کا ثبوت دیا تھا ۔ سونیا گاندھی نے دونوں تلگو ریاستوں میں سیاسی نقصان کی پرواہ کئے بغیر اپنی زبان پر قائم رہتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ اقتدار سے زیادہ اہمیت اقدار کی ہے۔ جموں و کشمیر میں تشکیل حکومت کے موقع پر کانگریس نے غیر معمولی فیصلہ کیا اور کشمیری عوام کے جذبات کی عکاسی کی۔ نیشنل کانفرنس سے اتحاد کے ذریعہ اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی لیکن کانگریس نے ریاست کا درجہ بحال ہونے تک حکومت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیری عوام کا دل جیت لیا ہے ۔ یوں تو حلیف جماعت کے طور پر اقتدار میں شراکت کانگریس کا حق ہے لیکن کانگریس نے اقتدار کی کرسی کے بجائے عوام کے ساتھ رہنے کا اعلان کیا۔ دفعہ 370 اور ریاست کے درجہ کی بحالی پر عوام نے فیصلہ سناتے ہوئے بی جے پی کا وادی سے صفایا کردیا ۔ مودی۔ امیت شاہ جوڑی نے کشمیری عوام سے ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن اقتدار کا خواب پورا نہیں ہوا اور اندیشہ ہے کہ مرکزی حکومت ریاست کی بحالی کو انتخابی جملہ قرار دے کر بھول جائے گی۔ کانگریس نے حکومت میں عدم شمولیت کے ذریعہ مودی حکومت کو وعدہ کی یاد دلائی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں اور قائدین کا بنیادی مقصد اقتدار ہوتا ہے لیکن ملک کو آزادی دلانے والی کانگریس پارٹی نے اقتدار پر اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے اقتدار کے لالچی اور بھوکوں کو بتادیا کہ کانگریس آج بھی وہی ہے جو جدوجہد آزادی کے وقت تھی۔ راہول گاندھی نے ثابت کیا کہ وہ کرسی کے لئے نہیں بلکہ حقیقی بادشاہ گر عوام کے مفادات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نئی نسل کو بتایا کہ اگر انسان نسلی ہو تو وہ اقدار سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ نسلی کے مقابلہ نقلی ہر وقت اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے خلاف مہم چلانے والی بی جے پی کا وجود اس وقت کہاں تھا جب پنڈت نہرو نے جیل صعوبتیں برداشت کیں۔ لاٹھی اور نکر کے ساتھ پریڈ کرنے والوں کے اجداد انگریزوں کے لئے فریڈم فائٹرس کی جاسوسی کر رہے تھے۔ جیل سے رہائی کیلئے انگریزوں کو لکھا گیا معافی نامہ بھی برسر عام ہوچکا ہے۔ آر ایس ایس ، سنگھ پریوار اور بی جے پی کیا صورت لے کر پنڈت نہرو پر تنقید کر رہے ہیں جو ماڈرن انڈیا کے نظریہ ساز ہیں۔ آبپاشی پراجکٹس ، دفاعی تحقیق کے ادارے اور ملک میں سائنس و ٹکنالوجی کے جو بھی مرکزی ادارے ہیں ، وہ کانگریس کی دین ہیں۔ ملک کو نیوکلیئر طاقت بنانے کا سہرا اندرا گاندھی کے سر جاتا ہے ۔ ملک کی یکتا و یکجہتی پر جان نچھاور کرنے والے اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے حقیقی وارث راہول گاندھی نے کشمیر کے ذریعہ ملک بھر کی پارٹیوں اور قائدین کو اصول پسندی کا درس دیا ہے۔
ملک میں زعفرانی اثرات مقننہ اور عاملہ تک محدود نہیں رہے بلکہ عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ملک کی عدالتوں میں مخالف شریعت اور مخالف مسلمان فیصلے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کیلئے حاصل کرنے جس طرح سپریم کورٹ کا سہارا لیا گیا ، اسی کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زعفرانی تنظیموں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں اور عدلیہ میں موجود زعفرانی ذہنیت نے بھی اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ ملک میں کئی مساجد کے خلاف عدالتوں کے فیصلے آچکے ہیں اور حتیٰ کہ مساجد کے انہدام کی ہدایت دی گئی۔ کاشی اور متھرا کے معاملہ میں ہندوتوا تنظیمیں بابری مسجد کی تاریخ کو دہرانے کا منصوبہ بنارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں معاملات میں عدلیہ نے آرکیالوجیکل سروے کی آڑ میں مساجد کو مندروں کے انہدام کے بعد تعمیر کرنے کے نظریہ کو قبول کیا ہے۔ طلاق ثلاثہ اور حجاب کے خلاف عدلیہ کے فیصلے ابھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں کہ اچانک کرناٹک ہائی کورٹ نے مساجد میں غیر مسلموں کی نعرہ بازی کو درست قرار دیا ہے۔ جسٹس ایم ناگا پرسنا کی زیر قیادت بنچ نے فیصلہ میں کہا کہ مسجد میں جئے شری رام کا نعرہ لگانے والے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب نہیں بن سکتے۔ اس طرح ہائی کورٹ نے ہندو فرقہ پرستوں کی جانب سے مسجد میں اشتعال انگیز نعرہ بازی کو درست قرار دیا ہے۔ عدالت کے مطابق مساجد عوامی مقامات ہیں اور کسی کے جانے پر پابندی نہیں۔ ہائی کورٹ نے نعرہ بازی کرنے والے ملزمین کے خلاف دائر مقدمات کو خارج کردیا۔ اگر اس فیصلہ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو کیا کسی مندر یا چرچ میں مسلمانوں کو مذہبی نعرہ لگانے کی اجازت رہے گی ؟ کیا نظم و نسق مذہبی نعرہ لگانے پر کارروائی نہیں کرے گا۔ جب مسجد عوامی مقام ہے تو پھر مندر ، چرچ اور گردوارہ بھی عوامی مقام کی تعریف میں آتے ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ دراصل زعفرانی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ دراصل عدلیہ پر جوابدہی طلب کرنے کیلئے موجود سپریم کورٹ نے بھی نرم رویہ اختیار کیا ہے، جس کے نتیجہ میں تحت کی عدالتوں میں متنازعہ فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ عدلیہ جب خود انصاف کے بجائے ناانصافی پر اتر آئے تو پھر عوام کس پر اعتبار کریں گے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں قانون کی دیوی کو تبدیل کردیا گیا۔ قانون کی دیوی کی آنکھوں پر موجود پٹی ہٹادی گئی اور ہاتھ میں تلوار کی جگہ دستور ہند تھمادیا گیا ہے۔ چہرہ پر پٹی کا مطلب یہ تھا کہ عدلیہ چہرہ دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتی اور تلوار کا مطلب قانون کا خوف دلانا تھا۔ اب قانون کی دیوی کو تبدیل کرتے ہوئے قانون کا ڈر ختم کردیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ قانون کی دیوی کو ناانصافی کے بارے میں کھلے عام واقف کرانے کیلئے آنکھوں سے پٹی ہٹادی گئی ہے۔ عدالتوںکی ناانصافیوں کو اب قانون کی دیوی دیکھ پائے گی۔ اچھا ہوا ترازو کی جگہ مورتی کے ہاتھ میں کنول کا پھول نہیں دیا گیا۔ اگر زعفرانی عناصر کا بس چلے تو وہ یہ کام بھی کرسکتے ہیں کیونکہ قانون میں انصاف باقی نہیں ہے اور ملک میں زعفرانی عناصر کا غلبہ ہوچکا ہے۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہماری ہر گواہی ٹوٹ جاتی ہے عدالت میں
غریبوں کے لہو کا رنگ بھی کچا نکلتا ہے