ہمارے دور کا فرعون ڈوبتا ہی نہیں

   

مسلمانوں کی ہر نشانی سے نفرت کیوں ؟
سنبھل کی جامع مسجد کے بعد اجمیر شریف نشانہ پر

رشیدالدین
ہندوستان میں سیکولرازم، جمہوریت اور مذہبی آزادی باقی ہے یا نہیں؟ ملک میں دستور کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی باقی ہے یا پھر ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو موجودہ حالات میں ہر ہندوستانی شہری کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ ہندوستان دستور پر قائم رہے گا یا ہندوتوا طاقتوں کے غلبہ کے تحت ہندو راشٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔ ان سوالات کے لئے ٹھوس بنیاد اور شواہد موجود ہیں۔ ملک میں دستور ہند کو اختیار کرنے کے 75 سال کی تکمیل کو سمویدھان دیوس کے طور پر منایا گیا اور حکمرانوں سے لے کر ایک عام سرکاری ملازم تک ہر کسی نے دستور کی پاسداری کا عہد کیا۔ ملک پر حکمرانی کرنے والے قائدین کا عہد ایک طرف لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا واقعی ملک میں دستور پر عمل کیا جارہا ہے ؟ سیاستدانوں کا یہ عہد عدالتوں میں جھوٹی گواہی سے قبل کھائی جانے والی قسم اور حلف سے زیادہ کچھ نہیں ۔ عدالتوں میں پیشہ ور گواہ مل جاتے ہیں جو جھوٹی قسم کھاکر اس شخص کے حق میں گواہی دیتے ہیں جس نے رقم ادا کی ہو۔ یہاں بھی دستور پر عمل کرنے کا عہد تو ہے لیکن یہ محض اقتدار برقرار رکھنے کی مجبوری کے تحت ہے۔ اس کا سچائی اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ملک دستور کو اختیار کرنے کے 75 سال کا جشن منا رہا تھا، اسی وقت سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی گئی کہ دستور ہند سے سیکولر، سوشلسٹ اور یکجہتی جیسے الفاظ کو حذف کردیا جائے کیونکہ یہ الفاظ 1949 میں دستور کی تدوین کے وقت شامل نہیں تھے بلکہ 1976 میں ترمیم کے ذریعہ شامل کئے گئے ۔ سپریم کورٹ نے دستور کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے درخواستوں کو مسترد کردیا ۔ ان درخواستوں کے پس پردہ ذہنیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں درخواست کے لئے وقت کا تعین بھی محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ دستور کو تبدیل کرنے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سازش کے دوران سپریم کورٹ کی یہ درخواست دراصل پہلا قدم ہے۔ اچھا ہوا کہ بی جے پی کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اگر اکثریت ہوتی تو شائد تیسری میعاد میں دستور کو تبدیل کرتے ہوئے سیکولر اور سوشلسٹ کی جگہ ہندو راشٹر کا لفظ شامل کردیا جاتا۔ گزشتہ 10 برسوں میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ جمہوریت اور سیکولرازم کے لئے سنگین خطرہ ہے ۔ ملک میں عدالتیں تو موجود ہیں لیکن فیصلوں پر اختیار کسی اور کا چل رہا ہے۔ مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ تینوں کو جارحانہ فرقہ پرست عناصر اور نفرت کے سوداگروں نے عملاً یرغمال بنا رکھا ہے ۔ مقننہ میں من مانی قوانین منظور کئے جارہے ہیں اور عاملہ کے ذریعہ جن کو نافذ کیا جارہا ہے ۔ تحت کی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک زیادہ تر فیصلے دستور ، قانون اور ثبوت و گواہ کے بجائے آستھا کی بنیاد اور برسر اقتدار پارٹی کی مرضی مطابق صادر کئے جارہے ہیں۔ ناانصافیوں کا ننگا ناچ دکھانے کیلئے انصاف کی مورتی کی آنکھوں سے پٹی نکال دی گئی۔ نریندر مودی کے 10 سالہ دور حکومت میں نفرت کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا گیا ہے کہ مسلمان کے نام سے ہی نفرت کا جذبہ پیدا ہوچکا ہے ۔ مسلمان اور ان سے منسوب ہر چیز سے نفرت کی جانے لگی ہے، چاہے وہ عبادات ، عبادتگاہیں ، درگاہ ، دینی مدارس اور خانقاہ کیوں نہ ہوں۔ ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت اور تعصب کا شکار عناصر ہر دور میں رہے لیکن یہ مٹھی پر تھے اور اکثریت کا تعلق مذہبی رواداری سے رہا جس کے نتیجہ میں یہ طاقتیں سر ابھار نہیں سکیں لیکن گزشتہ 10 برسوں میں گاؤں سے شہر تک، اسکول سے یونیورسٹی تک ، بازاروں سے شاپنگ مالس تک۔ حتیٰ کہ غیر تعلیم یافتہ سے لے کر تعلیم یافتہ اور دانشور تک یہ زہر گھول دیا گیا جس کے نتیجہ میں بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام کے ہر سطح پر ذہنیت آلودہ اور زہر آلود ہوچکی ہے۔ انصاف پسند اور سیکولرازم کے علمبردار تعداد میں کم ہوچکے ہیں۔ ہر بڑے عہدہ پر فائز شخص ریٹائرمنٹ کے بعد زعفرانی پرچم تھام رہا ہے جو ایک سنگین معاملہ ہے ۔ اگر نفرت اسی طرح تیزی سے پھیلتی جائے تو پتہ نہیں صورتحال کہاں جاکر رکے گی۔ ملک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تعداد میں کمی کے باوجود سیکولر اور جمہوری طاقتیں اپنے عزائم میں بے باک اور ارادوں میں مضبوط ہیں جس کے نتیجہ میں نفرتی طاقتیں تعداد میں اضافہ کے باوجود کمزور اور خوفزدہ ہیں۔ بھولے بھالے عوام کے ذہنوں کو آخر آلودہ اور زہر انگیز کس نے کیا ؟ اس بارے میں ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نام آئے گا اور وہ نریندر مودی ہیں۔ گجرات میں مظلوموں کے خون سے آلودہ لباس کے ساتھ دہلی پہنچنے کے بعد قومی سطح پر نفرت کو ہوا دی گئی ۔ عوامی جلسوں میں برسر عام نفرت کے نعرے کس نے لگائے۔ سماج کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کی بات کس نے کی ۔ انتخابی ریالیوں میں ہندوؤں سے کس نے کہا کہ تمہاری زمین جائیداد چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دے دی جائے گی ۔ ملک میں در اندازی کرنے والوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ اگر دو بھینس ہوں تو ایک بھینس کھول کر مخالف کو دی جائے گی ۔ اپوزیشن والے تمہارے زیور ، گہنے ، بائیک اور مکان چھین لیں گے ۔ یہ کس نے کہا تھا کہ لوگ لباس سے پہچانے جاتے ہیں۔ شمشان اور قبرستان کس کی زبان سے نکلا۔ ظاہر ہے کہ جنہوں نے سماج کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے وہ سیکولرازم ، جمہوریت اور مذہبی رواداری کی بات کیسے کریں گے ۔ ان سے انصاف کی امید کرنا فضول ہے ، تاوقتیکہ عوام خود نفرت کے پیام سے عاجز آکر اقتدار سے بے دخل کردیں۔
ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور تاریخی مقامات کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بابری مسجد کی اراضی پر مندر کی تعمیر کے بعد بھی فرقہ پرست جنونیوں کو چین نہیں آیا اور وہ یکے بعد دیگرے ملک کی تاریخی مساجد پر مندر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اترپردیش میں سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف مقامی عدالت کی ملی بھگت سے سازش کی گئی۔ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کرائے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے سروے کی مانگ کی گئی۔ مقامی عدالت نے مسلمانوں کی سماعت کئے بغیر ہی یکطرفہ طور پر فیصلہ سنادیا اور سروے کی اجازت دی۔ چند گھنٹوں میں سروے ٹیم جامع مسجد پہنچ گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ کا کوئی بھی فیصلہ فریقین کے موقف کی سماعت کے بعد ہوتا ہے لیکن سنبھل میں جو کچھ ہوا ، وہ عدلیہ کے کردار پر ایک بدنما داغ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو مستحکم کرنے کیلئے یہ سازش رچی گئی تاکہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار ہو۔ سنبھل کے جیالے نوجوانوں نے مسجد کے تحفظ کیلئے اپنی جان نچھاور کردی ۔ مقامی عدالت کی آڑ میں جامع مسجد کے خلاف جاری سازش پر آخرکار سپریم کورٹ نے روک لگادی ہے ۔ سپریم کورٹ نے مقامی عدالت کی کارروائی حتیٰ کہ سروے پر روک لگاتے ہوئے مسجد کمیٹی کو ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا ۔ موجودہ حالات میں سپریم کورٹ انصاف کیلئے عوام کی آخری امید کی طرح ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے سنبھل کے شہیدوں کے افراد خاندان کو پرسہ دینے اور ان کی مدد کرنے کے بجائے اعلان کیا کہ سنگباری کرنے والے افراد سے معاوضہ حاصل کیا جائے گا۔ کاشی اور متھرا کے بعد سنبھل کی جامع مسجد پر دعویداری سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔ اب تو اجمیر شریف پر دعویداری پیش کرتے ہوئے سروے کی مانگ کی گئی ہے۔ 800 سال سے زائد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عقیدت مند کروڑہا کی تعداد میں ہیں اور ہر سال عرس کے موقع پر دنیا بھر سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہر شخصیت نے عرس کے موقع پر خصوصی چادر روانہ کی ہے ۔ خود نریندر مودی بھی ہر سال چادر روانہ کرتے ہیں لیکن افسوس کہ اجمیر شریف کے خلاف عدالت میں درخواست پر وہ خاموش ہیں۔ عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ سماعت کے مرحلہ میں درخواست کو مسترد کرتی لیکن نچلی عدالتوں کی صورتحال سنبھل کی جامع مسجد معاملہ سے واضح ہوجاتی ہے ۔ جارحانہ فرقہ پرست عناصر تاج محل اور قطب مینار پر بھی اپنی دعویداری پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوستان کو مشورہ دیا کہ وہ ہر مسجد کے نیچے شیو لنک کی تلاش بند کردیں۔ لیکن یہ مشورہ اس لئے قابل سماعت نہیں رہا کیونکہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ خود آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے بابری مسجد کی تحریک سے لے کر آج تک عوام کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جو بیج بوئے ہیں ، اس کا پودے کی شکل احتیار کرنا یقینی ہے۔ دستور پر پابندی کا عہد کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی آخر کب اپنی زبان کھولیں گے۔ اقبال اشہر نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمارے دور کا فرعون ڈوبتا ہی نہیں
کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ