ہمارے ملک میں نظام انصاف کی کلیدی ناکامیاں

   

ذیشان کاسکر
ہندوستان میں کیا غریب و محروم طبقات کو نظام انصاف تک رسائی حاصل ہے اور اگر رسائی حاصل ہے تو کیا انہیں انصاف جلد مل جاتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات یقیناً نفی میں ہیں۔ جنوبی ریاستوں میں بہتری کے باوجود رپورٹ سے پتہ چلتا ہیکہ ہندوستانی آبادی کا ایک قابل لحاظ حصہ خاص طور پر پسماندہ و کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو انصاف بڑی سست روی اور بڑی تاخیر سے ملتا ہے اور انصاف کی یہ سست روی بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اور یہ بڑی بدبختی کی بات ہیکہ انصاف غریبوں و کمزوروں کی پہنچ سے اکثر باہر ہوتا ہے۔ یعنی انصاف تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ حال ہی میں انڈیا جسٹس رپورٹ (IJR) منظرعام پر آئی۔ اس تازہ ترین رپورٹ نے سارے ملک میں انصاف کی فراہمی میں ایک واضح طور پر ناہموار منظرنامہ کا انکشاف کیا ہے جس میں جنوبی ہند کی ریاستوں کا مظاہرہ ملک کی دیگر ریاستوں کی بہ نسبت بہت بہتر ہے۔ باالفاظ دیگر اس معاملہ میں اپنے بہتر مظاہرہ کی بنیاد پر جنوبی ریاستوں نے اپنی ہم منصب دوسری ریاستوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تاہم مذکورہ رپورٹ میں جو اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں اس کا بغور جائزہ لیں تو ذات پات اور جنس پر مبنی گہرے تفاوت یا فرق بے نقاب ہوتا ہے۔ اس طرح مہاراشٹرا کا ریکارڈ بھی اس مرتبہ خراب دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ریاستیں بھی مثالی نہیں ہیں۔ پورے بورڈ میں رپورٹ ذات پات اور صنفی تفاوت ناقص بنیادی سہولتوں اور انسانی وسائل کی کمی کو نمایاں کرتی ہے اور یہ رجحان اہم اداروں کے کام میں رکاوٹ ہے۔
ذات پات اور صنفی خلیج: اگر ہم پولیس فورس کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ پولیس فورس میں مردوں کی اور اعلیٰ ذات والوں کی اجارہ داری ہے جبکہ درج فہرست پسماندہ طبقات و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات OBCS سے تعلق رکھنے والوں کی پولیس فورس میں تعداد 59 فیصد ہے ان میں سے 61 فیصد کانسٹیبل کی سطح پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں درج فہرست طبقات کی نمائندگی 61 فیصد ہے حالانکہ ان کی نمائندگی ان کی اپنی آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ آپ کو بتادیں کہ راجستھان میں ان کا تناسب 52 فیصد، بہار میں 42 فیصد ہے جس سے پتہ چلتا ہیکہ ان عہدوں میں پسماندہ طبقات کا جو حصہ ہونا چاہئے وہ نہیں ہے ہاں صرف کرناٹک وہ واحد بڑی ریاست ہے جہاں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سیز کی نمائندگی چاہے وہ پولیس میں ہو یا عدلیہ میں متناسب ہے۔ ہاں ایک اور بات یہ ہیکہ اس معاملہ میں خواتین کا مظاہرہ کسی قدر بہتر ہے۔ ملک بھر کی پولیس فورس میں خواتین کی تعداد 11.75 فیصد ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف دہلی میں ہی مرکزی حکومت کے قواعد پر عمل کیا جارہا ہے جہاں ہر پولیس اسٹیشن میں ایک خاتون سب انسپکٹر اور 10 خاتون کانسٹیبلس خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اگر ہم عدلیہ کی بات کرتے ہیں ضلعی سطح کی عدالتوں میں تقریباً 40 فیصد خاتون ججس ہیں تاہم ہائیکورٹ میں خاتون ججس کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے۔ جہاں تک ہائیکورٹس کا سوال ہے ان عدالتوں میں خاتون ججس کی تعداد 15 فیصد ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سپریم کورٹ کے 17 برسرخدمت ججس میں صرف ایک خاتون جج ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں بطور خاص اس بات کا ذکرکیا گیا ہے بعض ریاستوں جیسے اوڈیشہ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں معمولی بہتری دیکھی گئی۔
قانونی امداد بری طرح متاثر ہے : لیگل سرویس اتھاریٹیز (LSAs) دستور کی دفعہ 39A کے تحت مستحق شہریوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ تاہم اس پر عمل آوری ندارد ہے۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قانونی امداد حاصل کرنے کے مستحق ہر 10 تا 30 ہزار شہریوں کیلئے صرف ایک وکیل ہے۔ اس کے علاوہ تربیت کا فقدان، کام کے ناقص حالات اور ادائیگی میں تاخیر ایسی وجوہات ہیں جو قانونی امدادی نظام کے موثر پن کو خطرہ میں ڈالتے ہیں۔ اس معاملہ میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے لیکن ایسا بہت کم کیا جاتا ہے نتیجہ میں ایسے بے شمار افراد ہے جو مفت قانون کونسلنگ سے متعلق اپنے حق سے بے خبر ہیں۔ انڈیا جسٹس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہیکہ ہمارے ملک میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی ہیں۔ اس کا قومی اوسط 118.5 فیصد ہے کئی ریاستوں جیسے اترکھنڈ (183%)، اترپردیش (176%) اور دہلی (174%) بتائی جاتی ہے۔ صورتحال حد سے زیادہ خراب ہے۔ ہندوستان میں اگر زیردریافت قیدیوں کی تعداد پر غور کیا جائے تو ملک کی جیلوں میں جو قیدی ہیں، ان میں سے 77.1 فیصد زیردریافت قیدی ہیں۔ دس سال قبل یہ تعداد 69 فیصد تھی۔ اس طرح کے رجحان سے فوجداری نظام انصاف میں پائے جانے والے تعصب کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر ہم زیردریافت قیدیوں کی بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ ان میں دلت، قبائل اور مسلمان سب سے زیادہ ہے۔ یہ طبقات ایسے ہی جیلوں میں بند ہیں جن کی تعداد ان کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے لیکن جیلوں میں جو زیردریافت قیدی ہیں ان میں مسلم قیدیوں کی تعداد 17.4 فیصد ہے اسی طرح ایس سی اور ایس ٹی طبقات سے تعلق رکھنے والے زیردریافت قیدیوں کی تعداد 32 فیصد ہے۔