ہمالیائی خطہ کے عوام کے مطالبات کی سماعت ضروری

   

یوگیندر یادو
آج کل لداخ کے ماحولیاتی کارکن سونم وانگ چک کے بہت زیادہ چرچے ہیں۔ اُن کے خبروں اور سرخیوں میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور اسے دستور کے چھٹویں شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی طرف مارچ کررہے تھے۔ اس مارچ کا مقصد لداخ کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ ان کے خیال میں لداخ ماحولیاتی اور تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے۔ وانگ چک اور ان کے رفقاء کا خیال ہے کہ کوئی بھی ترقیاتی پراجکٹ علاقہ کی حساسیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بنایا جائے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ لداخ پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے متاثر ہے۔ سونم وانگ چک اور ان کے رفقاء کی اس مہم نے نہ صرف ہمیں ہمالیائی علاقہ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت کی یاد دہانی کرائی بلکہ اس دور میں ہمیں یہ سمجھنے کی جانب راغب کیاکہ ہمالیائی پالیسی کی اہمیت و افادیت کیا معنی رکھتے ہیں۔ بہرحال سونم وانگ چک کی قیادت میں لیہہ تا دہلی جو تاریخی پدیاترا کا اہتمام کیا گیا وہ اُس ضرورت کی یاد دہانی بھی کرواتی ہے جو رام منوہر لوہیا جیسی قدآور شخصیت نے ظاہر کرتے ہوئے ہمالیائی علاقہ کے لئے خصوصی پالیسی پر زور دیا تھا۔ آنجہانی رام منوہر لوہیا نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ ہندوستان کو ایک یقینی ہمالیہ پالیسی درکار ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جب ہند ۔ چین سرحد سے شہریوں کا ایک گروپ جس میں مرد و خواتین اور ضعیف لوگ بھی شامل تھے، قومی دارالحکومت دہلی کی طرف مارچ کیا، اُن لوگوں نے 1000 کیلو میٹر کا فاصلہ ایک ماہ میں پورا کیا۔ ایک ہزار کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دہلی پہنچنے پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت ان کے مطالبات کی بغور اور ہمدردانہ سماعت کرتی لیکن دہلی پہنچنے پر ان کے مطالبات و خیالات کی سماعت کرنے کے بجائے اُن لوگوں کا دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے (اب دفعہ 144 بی این ایس ایس کی دفعہ 163 ہوگئی ہے) استقبال کیا گیا۔ حکام نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے بغیر کسی وجہ ان کو حراست میں لے لیا۔ بہرحال لداخ بھون میں غیر رسمی حراست اور بھوک ہڑتال کیلئے جگہ دینے سے انکار کرتے ہوئے ایک طرح سے ان کے جمہوری و دستوری حقوق پامال کئے۔ آپ کو بتادوں کہ سونم وانگ چک کی بھوک ہڑتال کے 8 ویں دن جب اُنھوں نے دوسروں کو بھی اپنی بھوک ہڑتال میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا تب پولیس نے دوبارہ حرکت میں آکر وانگ چک کے کئی حامیوں کو حراست میں لے لیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ لداخ کے عوام کی یہ تحریک جس کی قیادت لیہہ اییکس باڈی اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس کررہے ہیں، کئی ماہ سے جاری ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ تحریک فوجی سطح پر میڈیا اور عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی توجہ حاصل کرنے سے محروم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لداخ میں یہ احتجاج ہمارے سارے ہمالیائی خطے میں پیش آئے کئی ایک واقعات میں سے ایک ہے۔ ان واقعات میں جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی، اتراکھنڈ میں بڑے پیمانے پر زمینی تودوں کا کھسکنا، پڑوسی ملک نیپال میں حکومت کی تبدیلی، سکم میں تباہ کن سیلاب، چین سے بھوٹان کی قربت، آسام میں این پی آر کے خلاف مظاہرے اور ان مظاہروں سے پیدا شدہ بحران اور منی پور میں خانہ جنگی شامل ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم ان واقعات کی درجہ بندی اور زمرہ بندی کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مثلاً ہم ان واقعات کی جغرافیائی سیاست، دہشت گردی، داخلی سلامتی، آفات سماوی، نسلی تشدد وغیرہ وغیرہ میں درجہ بندی کردیتے ہیں۔ 70 سال قبل رام منوہر لوہیا نے ہمالیائی خطے کی ریاستوں کے باہمی تعلقات اور انھیں درپیش مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مربوط نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا تھا۔ رام منوہر لوہیا چاہتے تھے کہ ہندوستان مغرب میں پختونستان سے لے کر مشرق میں برما (میانمار) تک پورے ہمالیائی خطہ پر محیط مقامات اور وہاں آباد لوگوں کے لئے ایک مربوط اور جمہوری نقطہ نظر تیار کرے۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ رام منوہر لوہیا نے آخر اس بارے میں کیا کہا تھا۔ اس سلسلہ میں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ ملک کی آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں رام منوہر لوہیا کی مربوط ہمالیائی پالیسی کے لئے جو بنیادی تشویش تھی وہ اصل میں سیاسی تھی کیوں کہ اس دور میں ہندوستان پر چینی حملہ کا خطرہ بڑی تیزی سے بڑھتا جارہا تھا۔ خود رام منوہر لوہیا ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر ہمالیائی خطہ میں رہنے والے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کررہے تھے اور وہ ہمالیائی خطہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ خاص طور پر تبت اور نیپال میں اپنے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کررہے لوگوں کے حقوق کی وکالت کرنے ان کی تائید و حمایت کے لئے آگے آنے کے لئے حکومت ہند پر انھوں نے زور دیا۔ انھوں نے اس بارے میں واضح موقف اختیار کیاکہ ہندوستان کو تبت اور نیپال میں حکمرانوں کے خلاف عوام نے جو جدوجہد شروع کی اس کی تائید و حمایت کرنی چاہئے۔ اس موقع پر یہ دلیل بھی دی گئی کہ کشمیر اور ناگالینڈ میں اس دور کے باغیوں کو جمہوری عمل میں لانے کے لئے ان سے مذاکرات کرنے چاہئے۔ انھوں نے ویرسہ ایلوین کی قبائلیوں کے تئیں پالیسی کی شدت سے مخالفت کی کیوں کہ ایلوین نے شمال مشرقی خطہ میں آباد قبائلیوں کو سماجی اور دیگر معاملات میں غیر قبائلیوں سے الگ کرنے کی سفارش کی تھی۔ یعنی ایلون اس بات کے خواہاں تھے کہ قبائلیوں کو علیحدہ اضلاع دیئے جائیں۔ رام منوہر لوہیا کو اس دور میں بھی اور آج بھی نہرو مخالف کہا جاتا ہے۔ وہ شروع سے ہی پنڈت جواہر لال نہرو کی خارجہ پالیسی کے سخت ناقد تھے۔ اکثر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نہرو نے چین کی توسیع پسندی اور ہندوستان پر حملہ کرنے اس کی منصوبہ بندی پر آنکھیں موندھ لی تھیں۔ ہمالیائی پالیسی سے متعلق لوہیا کی بصیرت کی عکاسی (ہندوستان، چین اور شمالی سرحدیں) نامی کتاب میں ہوئی ہے۔ رام منوہر لوہیا نے اپنی اس کتاب میں ہمالیائی خطہ سے متعلق پالیسی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو اس خطہ کی مختلف ریاستوں کے باشندوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے شہریوں اور مابقی ہندوستان کے ساتھ ہمالیائی خطہ کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کے بارے میں ان کے موقف کو واضح کرتی ہے۔ آپ کو یہ بتادوں کہ ہندوستان کے غیر ہمالیائی خطوں سے تعلق رکھنے والے بہت کم عوامی شخصیتوں نے ہمالیائی خطہ پر رام منوہر لوہیا جیسا موقف اختیار کیا اور ان کی طرح اسی خطہ پر توجہ مرکوز کی۔ انقلابی و آزاد خیال ادیب راہول سنکر پتپانن نے ان سے پہلے اور فلسفی و سیاح کرشنا ناتھ نے ان کے بعد ہمالیائی خطہ پر توجہ دی اور اس کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا۔ اب اگر ہم وانک چک اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد یا تحریک کی بات کرتے ہیں تو وہ یقینا ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہمالیاتی خطہ پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ لداخ کے لئے ایک جمہوری حکمرانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ لداخ کو ایک مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے یا دہلی اور پڈوچیری کی طرح وہاں بھی منتخبہ مقننہ ہو۔ (واضح رہے کہ دہلی اور پڈوچیری مرکزی زیرانتظام علاقے ہیں جہاں لیفٹننٹ گورنر کو اسمبلی اور منتخبہ عوامی حکومت کے باوجود بے شمار اختیارات حاصل رہتے ہیں) ان لوگوں کی دلیل ہے کہ جموں و کشمیر میں ’’L‘‘ یعنی لداخ کو برسوں سے نظرانداز کیا گیا۔ ایسے میں لداخ کے لوگ وہاں ایک منتخبہ حکومت کی حکمرانی کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لداخ میں ایک جوابدہ حکومت ہو۔ لداخ کے عوام کا یہ مطالبہ یقینا واجبی مطالبہ ہے۔ آپ کو بتادوں کہ لداخ کی آبادی تقریباً 3 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایودھیا اور ہسار جیسے چھوٹے شہروں جیسی اس کی آبادی ہے لیکن اس کا رقبہ 59 ہزار مربع کیلو میٹر ہے جو جموں و کشمیر سے کہیں زیادہ ہے۔ یا منی پور، میزورم اور ناگا لینڈ تینوں ریاستوں کے مجموعی رقبہ سے بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس میں پارلیمانی حلقے بڑھائے جائیں۔ کیا اتنے وسیع اور سرحدی علاقہ میں اروناچل پردیش کی طرح دو ارکان لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ایک نمائندہ نہیں ہونا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جمہوریت کو غیر مرکوز کیا جائے۔ اس مارچ کا فوری مطالبہ یہ ہے کہ لداخ کو چھٹویں شیڈول کا درجہ دیا جائے جس سے خطہ میں مختلف قبائلی برادریوں کے اکثریتی 8 اضلاع کو اپنی خود مختار ضلعی کونسلیں تشکیل دینے کی اجازت دی جائے گی۔ ویسے بھی بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر چھوٹی برادری کو اس کی تہذیب و ثقافت اور شناخت بچانے بااختیار بنائے گی۔