ہمت کرے اِنساں تو کیا ہو نہیں سکتا

   

محمد مصطفی علی سروری

عید الضحیٰ کے دن احمد بھائی کے گھر میں بھی بکروں کی قربانی دی جارہی تھی اور احمد بھائی خود ہی سارے کام کاج کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ حالانکہ پچھلے برس احمد بھائی کا بڑا لڑکا ہی آگے آگے تھا۔ صبح جلدی جاکر نماز عید کی ادائیگی اس سے ایک دن پہلے بکروں کی خریداری، ان کے لیے رسی اور گھانس کا بندوبست، سب کچھ ان کے بیٹے نے ہی کیا تھا لیکن اس بار یہ سارا کام احمد بھائی کو ہی کرنا پڑ رہا تھا۔ قارئین احمد بھائی کا بیٹا نہ تو بیمار پڑگیا اور نہ ہی ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک چلاگیا تھا بلکہ احمد بھائی کا بیٹا اپنے والدین سے ناراض تھا اور اس نے باضابطہ طور پر اعلان کردیا تھا کہ چونکہ اس کے والدین نے اس کی بات نہیں مانی اس لیے وہ عید کا کوئی بھی کام نہیں کرے گا۔ احمد بھائی کے لڑکے نے اس برس انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی تھی اور اب روزگار کی تلاش میں تھا۔ لیکن رمضان کی عید کے بعد سے اس کا اصرار تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گوا کی ٹرپ کرے گا۔ چونکہ اس کا ایک دوست بہت جلد باہر جارہا ہے تو وہ لوگ پکنک کے لیے جانا چاہتے تھے۔ قارئین سوال صرف گوا جانے کا ہی نہیں تھا بلکہ ساتھ میں 20 ہزار روپئے دینے کا بھی تھا۔ حالانکہ احمد بھائی کی بیوی اپنے بچے کو پکنک پر بھیجنے کے لیے تیار ہوگئی تھی مگر احمد بھائی اپنے موقف پر اٹل تھے کہ نہیں۔ بچے کی انجینئرنگ مکمل ہوگئی۔ اب اس کو جاب کے لیے سخت محنت کرنی ہے اس لیے کوئی پکنک نہیں ہوسکتی ہے۔
والد کی جانب سے گوا پکنک نے سے منع کردینے پر ان کے لڑکے نے واضح کردیا کہ اب وہ گھر کا کوئی کام نہیں کرے گا۔ احمد بھائی کی بیگم کے مطابق وہ تو گھر میں کھانا بھی نہیں کھانا چاہتا تھا۔ ماں کی بڑی منت سماجت کے بعد ہی وہ گھر پر کھانا کھارہا ہے۔ قارئین اس سارے واقعہ میں نام فرضی استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس سارے واقعہ کو اس لیے بھی آج کے کالم کا موضوع بنانا مناسب محسوس ہوا کیونکہ 15؍ جولائی کو اخبار انڈین ایکسپریس میں ایس گوتم کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کیرالہ کے ایک ایسے 17 سالہ لڑکے کی کہانی شامل تھی جس نے ملک بھر گھومنے کی اپنی خواہش کو پورا بھی کرلیا اور گھر والوں پر کسی طرح کا مالی بوجھ بھی پڑنے نہیں دیا۔
ایک چیز جو اس واقعہ میں سمجھ میں آتی ہے کہ گھومنے پھرنے کی خواہش آج کل کے نوجوانوں میں عام ہے۔ صرف کسی ایک مذہب یا سماج کے نوجوانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ کنم کلم تھروسر کیرالا کے رہنے والے وشال ہنری کی عمر صرف 17 برس ہے۔ انٹرمیڈیٹ پاس اس نوجوان نے 93 دنوں میں ہندوستان کے 29 ریاستوں میں گھومتے ہوئے اپنی تفریح کا سامان خود پیدا کیا اور اپنے والدین پر کسی طرح کا مالی بوجھ بھی پڑنے نہیں دیا۔ اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے وشال نے بتلایا کہ مجھے ہمیشہ سے ہی ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں گھومنے پھرنے کا شوق تھا۔ میں اپنے والدین سے اس کے متعلق بات بھی کرتا تھا لیکن وہ لوگ میرے اس شوق کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ اس مرتبہ جب میری بارہویں کے امتحان مکمل ہوگئی تو میں نے خود ہی ہندوستان بھر میں گھومنے کا منصوبہ بنایا۔ وشال کے مطابق اس کے منصوبہ پر اس کی ماں نے تو حامی بھرلی لیکن اس کے والد کا ماننا تھا کہ تھوڑے دن گھومنے کے بعد اس کو واپس گھر آنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
2؍ اپریل 2019 کو شال نے کیرالا میں کوچی سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور کنیاکماری کے لیے سفر شروع کیا۔ وشال نے سفر میں اپنے ساتھ پانچ جوڑے کپڑے، ایک سوئیٹر اور ایک بلانکٹ کے علاوہ ماں کی جانب سے دیئے جانے والے چار سو روپئے رکھ لیے اور بس سے نکل پڑا۔کنیاکماری پہنچتے پہنچتے وشال کے سارے پیسے ختم ہوگئے تھے۔ اب وشال کے لیے ٹرک ڈرائیوروں سے لفٹ لیے بغیر چارہ نہیں تھا۔ وشال نے اسی طرح لاری ڈرائیوروں سے لفٹ لے کر چینائی کا سفر طئے کیا۔ پھر کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، اڈیشہ، مغربی بنگال سے ہوتے ہوئے ملک کی تمام 29 ریاستوں کو گھومنے کا خواب پورا کیا۔ ہر مقام پر لاری سے مدد نہیں ملی تو بعض مقامات پر ٹریکٹرس، ٹینکرس سے بھی مدد مانگی۔
وشال نے اخبار کو بتلایا کہ راستے میں اس نے کہیں بھی کسی کے سامنے بھی کھانے کے لیے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ لوگ خود ہی اس کے لیے کھانا فراہم کردیتے تھے۔ بعض مرتبہ مندروں میں ملنے والے کھانے سے وشال کو پیٹ بھرنا پڑا۔ راستے میں وشال نہانے، دھونے کے لیے کیا کرتا تھا اس کے متعلق اخبار نے لکھا کہ وشال راستے میں ملنے والے تالاب اور پٹرول پمپ سے ملحقہ واش روم کا استعمال کرتا تھا اور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ وشال کو کھانا نہیں ملتا تھا۔ اس کے مطابق، بغیر کھانا کھائے بھی اس نے تین تین دن بھوکے بھی گذر گئے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ یہ تو کھانے اور نہانے کی بات تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ وشال راتوں میں کہاں ٹھہرتا تھا، اس سوال کے متعلق انڈین ایکسپریس اخبار کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ بس اسٹاپس، دوکانات کے شیڈس، چرچس کے احاطے اور ریلوے اسٹیشنوں پر شب بسری کرتا تھا۔
کیا پورے ہندوستان کو گھومنے کا اور وہ بھی صرف 400 روپئے لے کر گھر سے نکلنے کے بعد سارا کام اتنا آسان ہے! اس سوال کے جواب میں وشال کا کہنا ہے کہ نہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد ہر قدم پر مسائل ملتے ہیں اور پریشانیاں ہوتی ہیں۔ چونکہ اپنی مرضی سے اور اپنے شوق کی تکمیل کے لیے جب باہر نکلتے ہیں تو ایک ہی راستہ سامنے ہوتا ہے کہ مشکلات کا سامنا کرو یا گھر واپسی۔وشال نے بتلایا کہ اس کے سفر میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ وہ واقعی سونچنے لگا کہ اس کو واپس گھر چلے جانا چاہیے۔ وشال کے مطابق اڈیشہ میں اس کا فون چوری ہوگیا۔ وہ پولیس کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بڑا ٹھنڈا سا جواب دیا۔ اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ تب وہ اڈیشہ سے آل انڈیا ملیالی اسوسی ایشن سے مدد لینے کے لیے مجبور ہوا۔ وشال کی ماں نے اس کے لیے دوسرا فون خریدنے کے لیے پیسے بھیجے تب کہیں جاکر وشال کے لیے اپنے آگے کے سفر کو جاری رکھنا ممکن ہوا۔
آسام میں پیش آئے ایک واقعہ کے متعلق وشال نے انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ وہاں پر سفر کے دوران مصطفی نام کا ایک شخص ملا جو مجھے اپنے گھر چلنے کے لیے زور دے رہا تھا۔ میں تھوڑا سا مخمصہ میں مبتلا تھا کہ یہ شخص مسلمان ہے اور ’’میں کیرالہ سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ سن کر مجھے گھر چلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ بالآخر میں اس مصطفی نام کے شخص کے ساتھ اس کے گھر پہنچا تب اس نے بتلایا کہ وہ کیرالہ میں کام کرتا ہے۔ وہ تو خود روزے سے تھا مگر اس نے مجھے اپنے گھر میں کھانا کھلانے کا انتظام کیا۔
ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے ہوتے ہوئے جب وشال گوا پہنچا تو وہاں پر لائنس کلب کے لوگوں نے اس کے لیے فلائٹ کا ٹکٹ خرید کر دیا اور وشال اپنے آخری پڑائو کا سفر گوا سے بذریعہ ایر لائنز پورا کرتے ہوئے کوچی پہنچا۔ اس نے بتلایا کہ زیرو بجٹ میں پورا ہندوستان گھومنے کا خواب ماں باپ کے تعاون سے ہی ممکن ہوسکا ہے اور قارئین وشال کے ماں باپ نے اس کو گھر سے نکلتے وقت صرف چار سو روپئے ہی دیئے تھے اور پورے ملک کے سفر کے دوران ایک مرتبہ اس کو نیا فون دلانے کا ہی کام کیا تھا۔ مگر وشال کہتا ہے کہ میرے ماں باپ اگر میرا تعاون نہ کرتے تو میں اپنے گھومنے پھرنے کے خواب کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ انصار باشاہ کی عمر 25 سال ہے۔ سال 2015ء میں اس نے میکانیکل انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ جاب انٹرویز میں شرکت کرتے وقت کمپنیاں اس سے تجربہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تو انٹرویو کے لیے انصار باشاہ ایک آفس میں گیا تو وہاں پر امیدواروں کو اپنا بائیوڈاٹا اور درخواست واچ مین کے ہاں جمع کردینے کو کہا گیا تھا۔ اب انصار باشاہ نے انٹرویوز دینے بند کردیئے ہیں۔ قارئین انصار نے انٹرویز دینے تو بند کردیئے ہیں لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش نہیں بیٹھا ہے بلکہ وہ تاملناڈو کے تریچی شہر میں سڑکوں پر گھوم پھر کر کاروبار کر رہا ہے۔ انصار باشاہ صرف اکلوتا تعلیم یافتہ شخص نہیں جو کمپنیوں میں نوکری نہیں ملنے پر سڑکوں پر کاروبار کر رہا ہے۔ تریچی شہر تاملناڈو میں واقع ہے۔ وہاں پر سڑک پر کام کرنے والوں کی Street Venders Association ہے۔ اشرف علی اس اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ہیں ان کے مطابق تریچی کے این ایس بی روڈ پر 700 افراد ہیں جو سڑک پر کاروبار کرتے ہیں۔ ان میں سے 10 ایم بی اے ہیں اور 25 نوجوان تو ایسے ہیں جن کے ہاں انجینئرنگ کی ڈگریاں ہیں۔ 40 نوجوانوں نے تو باضابطہ گریجویشن کیا ہے اور بعض پوسٹ گریجویٹ بھی ہیں اور انصار باشاہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ (بحوالہ جوز کے جوزف کی رپورٹ ۔ مطبوعہ 26؍ جولائی 2019، اخبار انڈین ایکسپریس)
قارئین بے روزگاری کسی ایک خطہ یا قوم کا مسئلہ نہیں۔ حصول تعلیم کے بعد بھی روزگار کی تلاش میں نوکری کی امید میں انصار باشاہ بھی خالی بیٹھ کر حکومت کو حکومتی اسکیمات کو اور حکومتی بے حسی کو کوس کر بھی گذارہ کرسکتا تھا لیکن انصار نے کسی کی شکایت کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کرنے کا راستہ اختیار کیا اور سڑکوں پر کاروبار کر کے اپنے گذارہ کا سامان خود پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔
میری دانست میں اس کی گھریلو تربیت کا بھی دخل ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسی صحت مند تربیت دینے کا سامان کر رہے ہیں۔ ذرا سونچئے گا۔ صرف احمد بھائی کے بچے کو نہیں، بہت سارے بچوں کو گھومنے پھرنے کا شوق ہوتا ہے۔ کیرالہ کے وشال نے اپنے شوق کو پورا بھی کیا اور والدین کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے پیسے تو صرف 400 ہی دیئے مگر تربیت ایسی کی کہ وشال 93 دنوں میں 29 ریاستوں کو گھومنے کے بعد گھر آکر یہی کہتا ہے کہ میرے والدین کا تعاون نہ ہوتا تو میں ہندوستان بھر میں گھوم نہیں سکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی صحیح خطوط پر تربیت کرنے کو آسان فرمادے اور حرام کے ہر لقمہ سے محفوظ رہتے ہوئے حلال طریقہ سے کمانے کے ہر راستہ کو آسان کردے۔آمین یا رب العالمین۔بقول شاعر
وہ کون سا عقدہ ہے جو واہو نہیں سکتا
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com