ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ونئے ویر

   

ایف ایم سلیم
حیدرآباد سے ہندی صحافت کو نئی بلندیوں پر پہنچانے والی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ روزنامہ ہندی ملاپ کے ایڈیٹر ونے ویر نے اس دنیائے فانی کو الودع کہہ دیا۔ ونے ویر صاحب کو میں نے پہلی بار تقریباً 26 سال پہلے1998 میں دیکھا تھا۔ رپورٹر کے طور پر ہندی ملاپ میں تقرری کے بعد اس وقت کے بیورو چیف ودیارنیہ نے میرا تعارف ان سے کرایا تھا۔ ملاپ کے پرانے دفتر میں ایڈیٹر کے کمرے میں ان سے وہ میری پہلی ملاقات تھی۔ لامبا قد، کھلتا ہوا گورارنگ، چہرے پر ایک خاص طرح کی مسکراہٹ اور چمک، رعب دار اور سنجیدگی بھری آواز ، لیکن اس میں پیار، مٹھاس اور بھرپور اعتماد تھا۔ پہلی ہی نظر میں جو کسی پر گہرا اثر چھوڑ جائے آیسی شخصیت کے مالک ، کمرے میں بیٹھتے تھے اور وجود کا اثر سارے کیمپس میں ہوتا تھا۔
ایک اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر کے طور پر وہ ایک کامیاب انسان تھے۔ میں نے اپنے سینئر افراد سے سنا ہے کہ ونے ویر اپنے والد مجاہد آزادی یدھ ویر جی کے انتقال سے پہلے اخبار کی سرگرمیوں میں ذیادہ دلچسپی نہیں لیا کرتے تھے، لیکن آل انڈیا سطح پر فوٹو گرافی کی دنیا میں وہ متعارف ہو چکے تھے۔ بدروکا کا لج سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے فوٹو گرافی کے شوق میں مصروف رہے۔ در اصل اخبار کی زمہ داری کے علاوہ ان کے دو ہی شوق تھے، فوٹوگرافی اور کرکٹ۔ جب یدھ ویر جی کی نگرانی میں ملاپ کا اردو اور انگریزی ایڈشن لندن سے شائع ہونا شروع ہوا تو ونے ویر نے لندن میں رہ کر اپنی فوٹو گرافی کے شوق کو پروان چڑھایا۔ یدھ ویر جی کے دیہانت کے بعد اخبار کی ساری ذمہ داریاں ونے ویر نے سنھالی، پوری طرح سے، فل ٹائم جاب سے بھی زیادہ۔ 1990 کے دہے میں اخباروں کی دنیا میں بہت ساری تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ کمپیوٹر کا رول بڑھ گیا تھا۔اخبار کے اسٹاف کو ٹیکنالوجی فرینڈلی بنانے کی بات ہو یا پھر اخبار کو ٹکنالوجی کی نئی دنیا سے جوڑنے کے بات ہو، انہوں نے ہندی ملاپ کو شمالی ہند کے ہندی اخباروں کے مقابلے میں کبھی بھی کہیں بھی پیچھے نہیں رکھا۔ ان کو ہنرمندی کی شناخت اور اسے تعمیری انداز میں استعمال کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ تجربات کی دنیا کے آدمی تھے۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی سے آگاہ تھے اور لوگوں کو بھی آگاہ کرتے رہے۔ ونے ویر کی زندگی میں ملاپ اخبار کے علاوہ شاید کوئی اور ہدف نہیں تھا۔ لوگ جب مجھ سے پوچھتے کہ ونے ویر کب اخبار کے دفتر آتے ہیں ، میرے لئے جواب دینا مشکل ہوتا، کیونکہ ملاقاتیوں کے لئے تو ان کا ایک وقت مقرر تھا، لیکن وہ چوبیس گھنٹے ملاپ میں ہوتے تن من دھن سے۔ صبح اٹھتے ہی سارے اخبار پڑھتے، یہ دیکھتے کہ کونسی خبر اور کونسا اشتہار ملاپ میں نہیں ہے اور اس تعالق سے متعالقہ شعبے کے اہم افراد سے بات کرتے۔ صبح بجے10 مقررہ وقت پر دفتر کے اپنے کمرے میں پہنچتے، فون پر لوگوں کی شکایتیں سنتے اور پھر شام دیر گئے تک مختلف معاملات کی نگرانی کرتے۔ دن میں ایک بار ہر شعبے کا دورہ کر جائزہ لیتے۔ اخبار کی دنیا میں شاید وہ واحد شخصیت تھے جو ایڈیٹر اور مالک ہونے کہ زمہ داری کچھ یوں نبھاتیکہ رات تقریباً ایک سے دو بجے تک وہ اس انتظار میں رہتے کہ آخری ایڈشن کے لئے پرینٹنگ مشین شروع ہو گئی ہے۔
انہوں نے بے شمار افراد کی زندگیوں کو سنوارنے بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ میری اپنی صحافتی زندگی میں آئی کئی تبدیلیاں بھی ونے ویر کی رہنمارئی کی مرہون منت رہی ہیں۔ جن دنوں میں نے ملاپ کے رپورٹنگ سیکشن میں قدم رکھا تھا، ہمارے کمرے کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ اور تھا، جہاں ایک خاتون کمپیوٹر آپریٹر فیچر کے پیجس کے لئے کمپوزنگ کیا کرتی تھیں۔ حالانکہ رپورٹنگ سیکش اور ایڈیٹوریل ان دنوں ابھی کمپیوٹر کا استعمال نہیں کر تے تھے۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی کاپی ہی تصحیح کو جاتی اور پھر کمپیوٹر سیکشن اسے کمپوز نگ کے بعد پروف ریڈنگ کو بھیج دیتا۔ ابھی انٹرنیٹ کی نیٹ ورکنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔ دن بھر کی رپورٹس فائل کرنے کے بعد میں کبھی کبھی پاس کے کمرے میں کمپیوٹر سیکھنے کی کوشش کرتا۔میں ایک دن نیوز رپورٹ کمپوز کرکے فلاپی میں ڈال کر ایڈیٹوریل میں دے آیا۔ میرے لئے حیرت کی انتہا نہ تھی کے دوسرے دن ونئے ویر صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلاکر کہا کے میرے خلاف کسی نے شکایت کی ہیکہ میں بغیر اجازت کمپیوٹر کا استعمال کرنے لگا ہوں۔ میں نے قبول کر لیا تھا کہ میں نے نیوز ٹائپ کرنے کے لئے کمپیوٹر کا استعمال کرنے کی گستاخی کی ہے۔ پھر انہوں نے بڑی ہی رازدارانہ مسکراہٹ چہرے پر بکھیرتے ہوئے کہا کہ، تمہارے ٹیبل پر ایک کمپیوٹر لگا دیا جائے گا، اس پر اپنا شوق پورا کر لینااور پھر دو دن بعد روپرٹنگ سیکشن کا پہلا کمپیوٹر میرے ٹیبل پر تھا۔ اتنا ہی نہیں جب بھی موقع ملتا وہ کمپیوٹر سیکھنے اور اس دوران پیش آنے والے مسائل کوحل کرنے میں رہنمائی کرتے تھے۔ حالانکہ کمپیوٹر کے بارے میں انہوں نیکوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی، لیکن چاہے سافٹ ویئر کا مسئلہ ہو یا پھر ہارڈ ویئر کا وہ چٹکیوں میں کچھ اس طرح حل کرتے کے ہم اس مسئلے کو دوسری بار اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔ ملاپ کی بھروسیمند اور بااعتماد کمپیوٹر ڈزائنگ ٹیم میں کئی ایسے افراد ہیں جو آئے تو پرنٹگ مشین کسی اور کام کیلئے تھے، لیکن ونیویر کی رہنمائی اور حوصلا افزائی سے وہ ترقی کی راہ پر آگے بڑھ گئے۔
میری اپنی زندگی میں ان کی حوصلا افزائی کے سیکڑوں ایسے واقعات ہیں جو ونئے ویر کی یاد ہمیشہ دلاتیرہیں گے۔ ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میری پہلی اردو کتاب ہجوم میں چہرہ شائع ہوئی تھی۔ میں نے جب یہ بات ونے ویر کا بتائی تو انہوں نے مبارک باد دیتے ہوئے پوچھ لیا کہ اس کی رسم اجراء کا کچھ انتظام ہوا ہے؟ پھر انہوں نے ہی اس وقت کینیوز ایڈیٹر سداشو شرما سے اس معاملے میں رہنمائی کرنے کو کہا۔ ہندی ملاپ میں رسم اجرائی تقریب کا بڑا سا اشتہار شائع ہوا اور پھر کتاب کو روزنامہ سیاست کے دفتر میں ایم ٹی خان صاحب کے پاس بھیج کر ان سے تبصرہ لکھوایا گیا۔ اس طرح کئی واقعات کی یادیں نہ صرف ملاپ کی ملازمین بلکہ ملاپ پریوار سے جڑے کئی افراد کی زندگی میں تازہ ہیں ، جو ونے ویر کی یاد دلاتے رہیں گے۔
یہی وجہ ہیکہ ملازمین کے لئے وہ اخبار کیمالک کے طور پر نہیں بلکہ کرم فرما دوست، ہمدرد اور مخلص رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔ کبھی کسی بات پر ناراض بھی ہوتے تو چہرے پر غصہ اور جھنجھلاہٹ کبھی نہیں ہوتی۔ان کی خاموشی ہی بہت کچھ بیان کر جاتی۔ بہت ہی کم لفظوں میں کچھ اس طرح سے ناراضگی کا اظہار کرتے کہ سامنے والے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو اور مالک کا احترام بھی اس کی نظر میں بنا رہے۔ قیادت کی یہ خصوصیت نہ صرف انسانیت کی بہترین خوبیوں اور پسندیدہ اقدار میں سے ہے، بلکہ کسی بھی ٹیم لیڈر کے وقار کو بلند کرتی ہے۔
اخبار نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور وہ بھی ایسا اخبار جو کسی زبان کی کمیونٹی یا سماج کو یہ احساس دلاتا ہو کہ یہ ان کا اپنا اخبار ہے۔ ونئے ویر کی زندگی میں ہی ملاپ اخبار سرکولیشن اور اشتہارات کے معاملے میں لوگوں خصوصاً قارئین کی پسند اور ترجیح بن گیا تھا۔ یہ ملاپ کی بڑی کامیابی تھی۔ایک پاپولر اخبار کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک چھوٹی سی غلطی سے ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ مخالفین اس کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ تیا ر رہتے ہیں۔ ونے ویر ایڈٹر اور پبلشر کے ساتھ ساتھ ایک ماہر مینیجر بھی تھے۔ ڈائمج کنٹرول وہ بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ کسی خبر سے کسی خاص جماعت یا کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو اور لوگوں کی بھیڑ اخبار کے دفتر پر جمع ہو تو وہ بڑی ہی شائستگی سے ان کی بات سنتے اور کچھ ایسی ترکیب نکالتے کہ لوگ پرسکون لوٹ جائیں۔ اخبار کے کسی ملازم کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔ ملازمین کے ساتھ ساتھ انہوں نے اشتہارات کی دنیا میں بھی کئی افراد کی زندگی کو سنوارا، یہی وجہ تھی کہ جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو اشتہارات کے ایجنسیوں کی مالکین کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
حالانکہ لوگوں کو یہ شکایت ضرور تھی کہ وہ بہت کم کسی سے ملتے ہیں،لیکن جو بھی ان سے ملتا وہ ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو ، انسان کے طور پر عزت و احترام میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی کبھی نہیں کی۔ حالانکہ ان کی والدہ دو بار راجہ سبھا کی رکن رہی ، لیکن سیاسی دنیا میں کانگریس سے تعلقات اور رسوخ کا بے جااستعمال انہوں نے کبھی نہیں کیا۔ اپنے والد یدھ ویر جی کی یاد میں انہوں نے فاؤنڈیشن کا قیام کیا اور مختلف شعبہ حیات میں نمایا خدمات انجام دینے والوں کو ایوارڈ سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سب کے باوجود وہ بڑے اصول پسند انسان تھے۔ اپنی تصویر اپنے اخبار میں شائع کرنے کے سخت خلاف تھے اور آخری سانس تک اس اصول کا نباہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دیہانت کے بعد جب ان کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تو کئی لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ انہیں پہلی بار دیکھاہے۔
روزنامہ سیاست کے مدیران سے ویر پریوار کے دیرینہ دوستی رہی۔ سیاست کے بانی جناب عابد علی خان صاحب سے یدھ ویر کی دوستی تھی اور وہی دوستی ان کی دوسری نسل سے یعنی ونے ویر اور ذاہد علی خان صاحب میں رہی۔ آج عامر علی خان یدھ ویر فاونڈیشن کے ٹرسٹیوں میں شامل ہیں۔خاص بات یہ بھی ہے کہ جو افراد اردو ملاپ کے دور میں یدھ ویر جی کے قریب آ گئے تھے وہ ونے ویر کے زمانے میں ہندی ملاپ کے ہمدرد بنے رہے اور ملاپ کے دروازے بھی ان کے لئے ہمیشہ کھلے رہے۔ شاید کسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ ہر جگہ عطر ہی نہیں مہکا کرتے، کبھی کبھی شخصیت بھی خوشبو دے جاتی ہے۔ ونئے ویر بھی ایسی ہی شخصیت تھے، جو لوگوں کی یادوں میں خوشبو کی طرح بسے رہیں گے۔