’ہمیںسروکار نہیں کہ بابر نے کیا کیا تھا‘

,

   

مسئلہ یہ ہیکہ اب کیا کیا جاسکتا ہے، بابری مسجد اراضی تنازعہ پر سپریم کورٹ کا ریمارک

نئی دہلی ۔ 6 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے کہا ہیکہ وہ رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد اراضی کے تنازعہ کی سنگینی اور مذاکرات کے نتائج کے ملک کی سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ یہ مقدمہ محض کسی جائیداد تک محدود نہیں ہے بلکہ جذبات و عقائد سے تعلق رکھتا ہے۔ اس بنچ نے جس میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر شامل ہیں، کہا: ’’یہ محض کسی جائیداد ؍ ملکیت سے متعلق ہی نہیں بلکہ یہ دل و دماغ اور شاید اندمال (مداوا) سے بھی تعلق رکھتا ہے‘‘۔ اس بنچ نے مزید کہا: ’’اس بات سے ہمیں کوئی سرکار نہیں ہے کہ مغل شہنشاہ بابر نے کیا کیا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہیکہ فی الحال (مسئلہ) کیا ہے‘‘۔ عدالت عظمیٰ اس بات پر غور کررہی ہیکہ آیا اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔الہ آباد ہائیکورٹ کے 2010ء میں صادر کردہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں 14 درخواستیں زیرسماعت ہیں۔ اس فیصلہ میں مقدمہ کے تمام تین فریقوں کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کو مساویانہ طور پر فی کس 2.77 ایکر اراضی دینے کیلئے کہا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 26 فروری کو کہا تھا کہ اس مقدمہ کو عدالت کی طرف سے مقرر کردہ مذاکرات کار کے سپرد کئے جانے کے بارے میں آج 6 مارچ کو اعلان کیا جائے گا۔ مسلم فریقوں کی جانب سے سینئر وکیل راجیو دھون نے ثالثی کی مخالفت نہیں کی۔سپریم کورٹ نے ہندو فریقوں کی جانب سے ثالثی سے انکار کئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ ماضی پر اس کا کوئی زور نہیں تھا لیکن وہ بہتر مستقبل کی کوشش ضروری کرسکتی ہے۔آئینی بنچ نے اس کیساتھ ہی اپنا فیصلہ محفوظ کردیا کہ ایودھیا تنازعہ کا حل ثالثی کے ذریعہ ہو یا نہیں۔